• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہر صحت مند معاشرے کیلئے ضروری ہے، جسٹس طارق جہانگیری

لندن (سعید نیازی) عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمران ہر صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان میں بھی جج حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں اور سپریم کورٹ اپنی خودمختاری کے لیے کھڑی ہے۔ اس بات کا اظہار پاکستان سے آئے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ایسوسی ایشن آف انٹر نیشنل لائرز (گلوبل) کے زیراہتمام لنکنز ان میں تیسری سالانہ لاء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کانفرنس سے جج محمد طاہر اور سابق جسٹس شاہد جمیل سمیت ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس میں برطانیہ بھر سے وکلا کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مزید کہا کہ عدلیہ آزادی اور منصفانہ ٹرائل پر مبنی نظام انصاف کی بنیاد ہے جو ہر شہری کو بلاامتیاز یکساں انصاف فراہم کرنے کی ضمانت ہے۔ آزاد عدلیہ کا مطلب ہے کہ عدالتیں بغیر کسی سیاسی، سماجی اور معاشی دبائو کے انصاف فراہم کریں۔ جج حق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عدالتوں کو نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ آئین کا آرٹیکل175عدلیہ کو ہر قسم کی مداخلت سے تحفظ فراہم کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ بلاامتیاز فیصلے کریں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان عدلیہ کی آزادی کے لیے کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا بڑا سبب فریقین بھی بنتے ہیں، جو مسلسل التوا لیتے رہتے ہیں۔ مناسب دستاویزات فراہم نہیں کی جاتیں، ایسے اقدامات جان بوجھ کر یا انجانے میں کیے جائیں لیکن یہ مقدمہ کی طوالت کا سبب بنتے ہیں۔ عدالتوں کو ان مسائل کا ادراک ہے اور وہ ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات بھی کررہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غیر ضروری التوا دینے سے گریز کریں۔ ای فائلنگ اور آن لائن کیس ٹریکنگ سسٹم تاخیر کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ عدالتوں کو محدود وسائل میں کام کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ عدلیہ کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں۔ ججز کی کمی، سہولتوں سے عاری عدالتیں اور جدید ٹیکنالوجی تک محدود رسائی بھی مقدمات میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ درپیش مسائل کے باوجود عدلیہ انصاف کی فراہمی کے لیے بھرپور کوششیں کررہی ہے۔ ورچوئل کورٹس اور ری ہیرنگ گیم چینجر ثابت ہوئی ہیں اور کورٹس کو فعال طریقے سے مقدمات نمٹانے میں مدد مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمہ کے فریقین میں مصالحت اور اے ڈی آر کے دیگر طریقوں کے استعمال سے تنازعات حل ہوتے ہیں۔ تاہم اس کا پاکستان کے نظام انصاف میں استعمال کم ہے، جس کی بڑی وجہ اس حوالے سے آغاہی نہ ہونا ہے اور اعتماد کی کمی بھی ہے، جس کے سبب مقدمات عدالتوں تک جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سول اور کمرشل تنازعات میں مصالحت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، تاکہ فریقین طویل مقدمات سے بچ سکیں۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ عدلیہ نے انسانی حقوق کے تحفظ اقلیتوں سے منفی امتیاز کے خاتمے اور جبری گمشدگیوں جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے منتظمین کو کانفرنس کے انعقاد پر خراج تحسین بھی پیش کیا اور کہا کہ ججز اور وکلا کے ملنے سے انہیں ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ سابق جسٹس شاہد جمیل نے کہا کہ پاکستان میں پیش کی جانے والی آئینی ترمیم سے عدلیہ کی آزادی پر سجھوتہ ہوگا اور اس ترمیم کے جلد انصاف کی فراہمی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاش اس طرح جلد انصاف کی فراہمی کے لیے سب مل بیٹھیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ دنیا میں پاکستان کے نظام انصاف بہتر انصاف فراہم کرنے والے ممالک فہرست میں130ویں نمبر پر تنقید کا نشانہ تو بناتے ہیں لیکن انہیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ قانون کی حکمرانی کی بنیادی ذمہ داری ایگزیکٹوز پر عائد ہوتی ہے۔ عدلیہ کی ذمہ قانون کی تشریح کرنا اور اس حوالے سے درپیش مسائل کو حل کرنا ہے اور اس بات کو بھی سنگین بنانا ہے کہ قانون کا اطلاق یکساں ہو۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی کے لیے مشترکہ کاوش کی بھی ضرورت ہے، جس میں عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، ریگولیٹری اتھارٹیز، سول سوسائٹی بار ایسوسی ایشن، صحافی، این جی اوز اور عام شہریوں کا کردار بھی شامل ہے۔ کانفرنس سے جج محمد طاہر نے بھی خطاب کیا اور عدلیہ کے مختلف ریوز پر روشنی دالی اور تمام طبقات کو مسلسل تحفظ کی وضاحت کی۔ ایسوسی ایشن کے صدر ضیاء اسلم خان نے کہا کہ ہماری ایسوسی ایشن15ممالک میں فعال ہے، جس کے تین ہزار سے زائد ارکان ہیں۔ ہم غزہ، کشمیر اور دنیا کے دیگر حل طلب مسائل کو بھی اجاگر کیا جائے تاکہ انہیں جلد حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی تجاویز سامنے آئیں کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ بیرسٹر راشد اسلم نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کا مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا بھر کا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے لندن سے ایک توانا آواز اٹھ سکے۔ ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر ندیم تاس نے کہا کہ کانفرنس قانون کے شعبہ سے وابستہ افراد کے درمیان تعلق پیدا کرنا وار مسائل کے حل کے لیے پیش رفقت کرنا ہے۔ اطہر نوید کیانی، یار خالد و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

یورپ سے سے مزید