ہندو دیو مالا میں ایک سانپ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ جمنا کے پانیوں میں زہر گھول دے تاکہ گائوں کی سب گائیں ہلاک ہو جائیں، مگر کرشن جی نے یہ سازش ناکام بنا دی، انہوں نے سانپ کو سدھا لیا، اور اُس کے پھن پر محوِ رقص ہو گئے۔ بھگوت گیتا میں مذکور ہے کہ اُس سانپ کا اسمِ گرامی ’کالیا‘ تھا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر قومی اسمبلی میں سانپوں کی اقسام کے ذکر نے ہمیںکتنے ہی تاریخی کوبرے اور شیش ناگ یاد دلا دیے، جنہوں نے ہمارے دریائوں کے فیروزی پانیوں کو زہر آلود کر دیا، پانی جو زندگی کی ضمانت ہوا کرتا ہے اسے موت کا پروانہ بنا دیا۔
یہ کہانی کبھی پرانی نہیں ہو گی۔جسٹس منیر نے فقط ایوب کے مارشل لا کو جائز قرار نہیں دیا تھا، انہوں نے بعد میں آنے والے سب ڈکٹیٹرز اور ججوں کو بھی آئین کو ڈسنے کا فارمولا سمجھادیا تھا، یعنی ایک گناہِ جاریہ کا ارتکاب کیا تھا۔جسٹس صاحب نے فرمایا تھا کہ فوجی مارشل لا دنیا بھر میں آئین کو بدلنے کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ نظریہء ضرورت کا خالق ہینس کیلسن بھی ایک کج جج کی اس تشریح پر سر پیٹ اٹھا تھا۔ ضیاالحق کے مارشل لا کو عدالت نے ’’ عوامی فلاح‘‘ کا ضامن قرار دیتے ہوئے جائز ٹھہرایا تھا۔ وہ ’’فلاح‘‘ آج بھی ہمارے گلی کوچوں میں پھنکار رہی ہے۔ اور جب پرویز مشرف نے مارشل لا کی بِین بجائی تو عدلیہ نے رقص آغاز کرنے میں ایک مرتبہ پھر مثالی عجلت کا مظاہرہ کیا تھا۔
جب 2007ءمیںعدلیہ کو وکلا تحریک ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے مل کر دودھ پلایا، اُس وقت افتخار چوہدری ’’جنگل بُک‘‘ کا ایک گیت گنگنا رہے تھے:
Trust in me,Just in me
Shut your eyes and trust in me
، ہم سادہ دلوں نے اعتبار کر لیا۔ بہرحال، جب افتخار چوہدری دوبارہ چیف جسٹس بنے تو ایک افعیِ اعظم کا روپ دھار چکے تھے جن کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں تھا، اور پھر ان کے بعد آنے والوں نے اسی زہریلی روایت کو ’پھن دہی‘ سے آگے بڑھایا۔ویسے تو روزِ اول سے ہماری عدلیہ کا کردار بدچلنی کا استعارہ رہا ہے مگرپچھلے15 سال میں تو حد ہی ہو گئی، یہ سب تو ابھی کی باتیں ہیں، آنکھوں دیکھی، ہمارے حافظے میں تازہ۔ بلا شبہ، پاکستان کاحالیہ سیاسی عدم استحکام چند عدالتی فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کو اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ انصاف گاہیں ابتدا سے ہی مقتدرہ کی حرم سرائوں میں ڈھل گئی تھیں، دونوں مل کر ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے، مارشل لا لگتے رہے اور ان کی توثیق ہوتی رہی، یہ جو ہماری تاریخ کے لگ بھگ آدھے سال پارلیمان غائب رہی، عوام کا حقِ حکم رانی پامال رہا، تو یہ سب اسی داستانِ الفت کی عنایات تھیں۔ ضیاالحق کی ذریت، آٹھویں ترمیم کے تحت نوے کی دہائی میں تین بار اسمبلی توڑی گئی۔ پوری پارلیمان نے مل کر یہ ترمیم ختم کی تو پھر مارشل لا لگ گیا، جائیں تو جائیں کہاں۔ ملک میں دوبارہ جمہوریت آئی، 2008 میں پی پی پی کی حکومت بنی تو اسے نکیل ڈالنے کیلئے58-2b موجود نہیں تھی۔ مگر جلد ہی کنگ کوبرا نے اس کا شافی حل ڈھونڈ لیا ۔ آئین کی شقوں باسٹھ تریسٹھ کے تحت سیاست دانوں کی تذلیل کرنے اور نااہل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جعلی ڈگریوں کی جعلی کہانیاں گھڑی گئیں، اور پھر آخر وزیرِ اعظم گیلانی کو توہینِ عدالت میں گھر بھیج دیا گیا۔یہ منتخب وزیرِ اعظم کو نکالنے کا برینڈ نیو طریقہ تھا جو بعد میں نواز شریف کو ڈسنے کے کام بھی آیا۔ ان ’خوش نیتی‘ پر مبنی فیصلوں کے زہر نے جسدِ ریاست کو نیلا کر دیا۔
پارلیمان کے بنائے قانون کو عدالتیں گٹر میں بہانے لگیں، تین جج بیٹھ کر آئین کو ری رائٹ کرنے لگے، کھل کر سیاست ہونے لگی، پی ڈی ایم حکومت آئی تو اسے کہا گیا آپ افسروں کی پوسٹنگ ٹرانسفر نہیں کر سکتے، وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صبح شام پیشیاں شروع ہو گئیں، اگر پارٹی سربراہ عمران خان ہیں تو ایک قانون، چوہدری شجاعت ہیں تو دوسرا ، حمزہ شہباز کی پنجاب حکومت ختم کرنے کے لیے خلافِ آئین فیصلہ دیا گیا، جس کا مقصد صرف اور صرف سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ یہ سب کچھ بلا خوفِ احتساب کیا جا رہا تھا کیوں کہ عدالت کے معاملات میں عوام اور ان کے نمائندوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔یہ ترمیم عدلیہ نے ’زبردستی‘ کروائی ہے، دے آسکڈ فار اِٹ۔ اپنے ’سائیں‘ سے تعلقات بگڑنے کے بعد عدالتوں کو محتاط ہو جانا چاہیے تھا، اپنی کینچلی بدل لینی چاہیے تھی،مگر وہ اپنی قلعہ بندی کے زعم میں مبتلا رہیں۔
اس ترمیم سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہو گی اور اس پر عوام کے نمائندوں کا اثرورسوخ بڑھ جائے گا؟عدلیہ کی مادر پدر آزادی کے ’ثمرات‘ کا قصہ تو ہم نے تفصیل سے لکھ دیا ہے۔ پارلیمان اور حکومت، چیف جسٹس کی تعیناتی اور آئینی بنچوں کے ضمن میں اپنے اختیار کو کتنی ذمہ داری سے استعمال کرتے ہیں، جلد معلوم ہو جائے گا۔ ویسے ترمیم کے دوران یہ اندازہ تو سب کو ہو گیا ہو گا کہ حکومت پر حلیفوں کے کتنے چیکس ہوتے ہیں، ہر سیاسی پارٹی اپنی اپنی کانسٹی ٹیونسی کو جواب دہ ہوتی ہے۔ جب کہ عدالت تو سرے سے کسی کو جواب دہ ہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ایک طرف حقائق ہیں، ایک طرف اوہام و ظنون۔ ہمارے بدترین اندیشے بھی درست ہو جائیں تو اُس سے برا کچھ نہیں ہو سکتا جو ہم دیکھ آئے ہیں۔چلتے چلتے مولانا کا شکریہ جنہوں نے اس ترمیم کی تہذیب کی اور بلاول بھٹو جی کا شکریہ جنہوں نے ایک سازش کو ناکام بنایا اور ہمارے پانیوں کو مزید زہر آلود ہونے سے بچا لیا۔