تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
پاکستان میں تو اسے اپنے آپ کو دہرانے کے علاوہ کوئی اور کام آتا بھی نہیں۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے، ان کے سوالات سننے اور تحمل سے جواب دینے کا دن، جس معاشرے میں کوئی سسٹم نہ ہو۔ امریکہ، یورپ، مشرق بعید، چین حتیٰ کہ بھارت میں بھی اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں نصاب بدلتی قدروں کے ساتھ بدلا جا رہا ہے۔ ایسی ریسرچ کروائی جاتی ہے جس سے قوم کا ذہن نئی تبدیلیوں کیلئے تیار رہے۔ ٹیکنالوجی ہر لمحے ترقی کررہی ہے۔ اگر آپ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے رموز سے آگاہ نہیں ہو رہے تو ٹیکنالوجی آپ کو استعمال کر نے لگتی ہے۔ پہلے ہی آپ ایک‘ بندھوا مزدور‘ کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ کہیں آپ کسی وڈیرے کے زیر استعمال ہیں، کسی چوہدری کے، کسی خان کسی سردار کے، اب آپ انٹرنیٹ کے ہاری بن گئے ہیں۔ یوٹیوب کے مزارع، ایکس کی ماسی۔ ہاتھ میں اسمارٹ فون لیے بلا وجہ مسکرارہے ہیں۔ طیش میں آرہے ہیں۔ ایسے مجبور موسموں میں اپنی نئی نسل کے ذہنوں میں جھانکنا اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔
آج سے 66سال پہلے 1958کراچی مرکزی دارُالحکومت ہے، ملک میں کوئی آئین ہے نہ پارلیمنٹ، 1956کے آئین کے تحت جس میجر جنرل کو گورنر جنرل سے صدر مملکت بنایا تھا۔ اس نے 20روز پہلے مارشل لانافذ کیا تھا، اب صبح سویرے تین جنرل ایوان صدر پہنچ گئے ہیں، صدر سے کہا جارہا ہے آپ کے جانے کا وقت آ گیا ہے، انہیں لندن بھیجا جارہا ہے، ہمارے آقا اس وقت لندن میں بکنگھم پیلس اور 10ڈائوننگ اسٹریٹ میں رہتے تھے، واشنگٹن نے ابھی ہمیں گود نہیں لیا تھا۔ اسکندر مرزا کی رخصتی کے ساتھ 27اکتوبر 1958سے ملک پر وردی غالب آگئی، صرف ایوان صدر، اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں ہی نہیں پورے ملک میں واہگہ سے دالبندین تک۔ چٹا گانگ سے ڈھاکے تک پاکستانیوں کو کسی آئین کے تحت نہیں بلکہ مارشل لا کے ضابطوں اور احکامات کے تحت زندگی گزارنا تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں عوام خوش ہوئے تھے۔ (1958میں عوام مذکر تھے)۔ تجاوزات ہٹائی گئیں، قیمتیں مقرر کی گئیں، اگست 1947سے اکتوبر 1958تک بانی پاکستان کی رحلت کا صدمہ، پھر پہلے وزیر اعظم کی شہادت پر چہ میگوئیاں، بار بار نئے نئے وزیر اعظم، واشنگٹن سے ایک سفیر کو لاکر وزارت عظمیٰ سونپ دی گئی۔ سلمان فاروقی اپنی یادداشتوں میں یہ منظر بتارہے ہیں کہ ملک کے گورنر جنرل ملک غلام محمد فرش پر ایک چادر لپیٹے ہوئے ہیں، منہ سے جھاگ نکل رہی ہے، وہ پورے ملک کے کروڑوں کی زندگی موت کے فیصلے کر رہے ہیں۔
ایک صحافی کی حیثیت سے ذہن میں ان تاریخوں کے ٹیگ لٹک رہے ہیں۔ صبح سویرے گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ دو روز سے 27اکتوبر 1958کا الارم بج رہا تھا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ہے، پارلیمانی نظام کو دفن کردیا گیا تھا۔ نسل در نسل آئین، پارلیمنٹ، نظم وضبط کی میتیں اٹھانے کے ہم عادی ہوگئے ہیں۔ 1971کے سانحے پر بحث جاری ہے۔ بہت اعتماد سے ہم اس المیے پر فاتحہ خوانی سے یہ کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان سے وابستہ ذوالفقار علی بھٹو ، اندرا گاندھی، شیخ مجیب عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت جو صدر تھے، کمانڈر انچیف، جن کے حکم پر یہ فوجی کارروائی شروع ہوئی۔ ان کو تو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
زمانہ اسمارٹ ہورہا ہے، اس لیے تاریخ بھی اپنے آپ کو دہراتے ہوئے لباس کی تراش خراش اس دور کے فیشن کے مطابق کرلیتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں تحقیق اور ایجاد کی جبلت ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ میکالے نے ختم کردی تھی۔ کسی وقت پروفیسر شاداب احسانی کی صحبت میں بیٹھئے اور باقاعدہ سن کے ساتھ جانئے کہ سب سے خواندہ پنجاب کو کس عمل کے تحت ناخواندہ بنانے میں کامیابی انگریز نے حاصل کی۔ میں بہت تلاش میں رہتا ہوں کہ ایسی کوئی رپورٹ کوئی کتاب میسر آئے کہ اب جن علاقوں میں اسلامی جمہوریۂ پاکستان ہے۔ جہاں کہیں 5ہزار سال کی میراث ہے کہیں 8 سے 10ہزار سال کی۔ غسل خانوں، باورچی خانوں، زیر استعمال برتنوں کی انواع و اقسام کے ساتھ یہ مطالعہ بھی مل سکے کہ یہاںرہنے والی قوموں کی عادتیں، طرز کلام مختلف ہزاریوں اور صدیوں میں کیسا رہا ہے۔ حملہ آوروں کی آمد نے تہذیب و تمدن میں کیا تبدیلیاں کیں۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہم با اثر مافیائوں، انا پرست حکمرانوں، اکثریت سے بے گانہ اقلیتوں کی جن منافقتوں کا سامنا کررہے ہیں،کس ترتیب سے ہماری فطرت اور برتائو کا حصہ بنی ہیں۔
ہم بزعم خود تجزیہ کار، دانشور تو جملے اچھالتے ہیں۔ لیکن کام کرنے والے سنجیدگی سے اس افراتفری میں بھی اپنا فرض انجام دیتے رہتے ہیں۔ آفریں ہے لاہور سے بچوں کیلئے لکھنے والے نذیر انبالوی پر، انہوں نے کئی سال پہلے یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ پاکستان کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی پر ’بچوں کے ادب کی الف لیلہ‘ پیش کریں گے۔1947سے 2022تک 75سال کے دوران بچوں کے رسالوں میں جو کہانیاں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان میں سے 1001کہانیوں کا انتخاب۔ پہلا مرحلہ، رسالے جمع کرنا، ملک میں افراتفری کے باعث دستاویزات ،کتابوں ،رسالوں کے تحفظ کا انتظام نہیں ہوسکا۔ 1947کے فسادات، ہجرت، مہاجر کیمپوں کی مستند دستاویزات سرکار کے پاس نہیں ہیں۔ نذیر انبالوی نگر نگر رسالے جمع کرتے رہے۔ فہیم عالم ان دنوں لاہور میں بچوں کے ادب کیلئے ’بچوں کا کتاب گھر‘ قائم کیے ہوئے ہیں۔ حکومت پنجاب تعاون کر رہی ہے۔ نئے رسالے بھی شائع ہورہے ہیں۔ بچوں کے ذہنوں کی آبیاری ایک منظّم طریقے سے ہورہی ہے۔ اب گزشتہ ہفتے ’الف لیلہ‘ خوبصورت پیراہنوں میں بن سنور کر،رنگ لٹاتی،خوشبو پھیلاتی، 20جلدوں میں اُردو کے نامور ادیبوں، نوجوان کہانی کاروں کی ہر قسم کی کہانیاں لے کر آگئی ہے۔ ہر جلد قریباً 300صفحات پر مشتمل۔ یعنی چھ ہزار صفحات میں اس عظیم ملک کی تخلیقی کاوشیں محفوظ ہو گئی ہیں۔ ’سونے کا بال‘۔ ’الٹا جوتا۔ سیدھا پائوں‘۔ ’بلیوں والی خالہ‘۔ ’گل بابا‘۔ ’جگنو کا قرض‘۔ ’میں ایک بھوت ہوں‘۔ ’دادا ابو زندہ باد‘۔ ’احتجاج مرغاں‘۔ ’اکتالیسواں دیا‘۔ ’سو برس کی نانی‘۔ لال بیگ ایڈونچر‘۔ ’بستی کا سورج‘۔ ’عینکو‘۔ ’ پتھر کا شہر‘۔ ہر جلد کا چونکا دینے والا عنوان۔ نذیر انبالوی نے اپنا کام کر دیا۔ اب حکومتیں اپنا فرض ادا کریں۔ ہر لائبریری میں یہ 20 سہیلیاں ہونی چاہئیں۔
ایسے کارنامے بہت سے محقق بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت، آزاد جموں و کشمیر میں انجام دے رہے ہیں۔ مگر ہم تجزیہ کار،کالم نویس، مایوسی کے نقیب بنے۔ الاماں الخدر چیختے رہتے ہیں، مرحبا، شاباش سے گریز کرتے ہیں۔