بیماری کی اذیت بیمار ہی جانتا ہے۔ جنگلات میں جیسے ہی کوئی جانور ذرا سا بیمار اور سست ہوتا ہے، درندے اسے پھاڑ کھاتے ہیں۔ دوسری طرف خدا نے انسان کو حکمت دی۔ بہت سی بیماریوں کے علاج پہ وہ قادر ہو گیا۔ یہ جو عقل انسان کو دی گئی کہ وہ خورد بین سے ایک جرثومہ پہچان کے اور اسے کمزور کر کے اس کی ویکسین بنا کر خود کو لگا لے، اس سے بڑا کرشمہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہاں البتہ اگر کوئی لا علاج بیماری کا شکار ہو تو مکیش امبانی کی دولت بھی کچھ نہیں کر سکتی۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ظہیر الدین بابر جیسے کتنے ہی نامور افراد ان معمولی بیماریوں سے مر گئے، جو اس وقت لاعلاج تھیں۔ طاعون نے بستیاں اجاڑیں۔ کرونا نے یورپ اور بھارت میں تباہی مچا دی تھی۔ طب میں سائنسی ترقی کی وجہ سے کرونا کی ویکسین بہت جلد تیار ہو گئی۔ کرونا سے متعلق اتنی سازشی تھیوریز اگر آج کے دور میں پیش کی جا سکتی ہیں اور وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی طرف سے، تو ماضی کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتاہے۔
صحت کے میدان میں انسان کس طرح دھوکہ کھاتا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ بے شمار ان پڑھ لوگوں نے کرونا کے علاج کا دعویٰ کیا۔ کئی تعلیم یافتہ لوگ ان سے علاج کرواتے رہے۔ حقیقت یہ تھی کہ کرونا میں بغیر کسی علاج کے بھی اکثریت نے قدرتی مدافعاتی نظام کی بدولت لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو جانا تھا۔
آج کا ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ انسان بھی کسی پراسرار حکیم کی زنبیل میں ایسے کسی جادوئی عنصر کا خواب دیکھنے سے باز نہیں آیا، جس سے اس کی لا علاج بیماری کرشماتی طور پر دور ہو سکے۔ اس امید کو کچھ لوگوں نے بہت کیش کرایا۔ اپنے کرشماتی علاج کے دعوے پھیلائے اور لوگوں کو لوٹا۔ جعلی مریضوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان سے اپنے کرشماتی علاج کے دعوے کرائے۔
ایک ایسا شخص، جس نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی، جو کاغذ پر جسم کے اندرونی اعضا بھی بنا کر دکھا نہیں سکتا، اسے دعویٰ ہے کہ وہ تمام بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے۔ وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ جگر کیا کام کرتا ہے لیکن وہ جگر کا علاج کر سکتا ہے۔ اسے دل کے کسی والو کا علم نہیں، کسی شریان کا علم نہیں لیکن وہ دل کے علاج کا دعویٰ رکھتا ہے۔ اس دھوکے کا نقطہ ء عروج نبض شناسی ہے۔میڈیکل سائنس کی تاریخ میں اس سے بڑا جھوٹ آج تک نہیں بولا گیا کہ ایک نا خواندہ شخص آپ کی نبض سے تمام بیماریوں کی درست تشخیص کر سکتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ نبض شناس دنیا کے صرف ایک ملک میں پائے جاتے ہیں، جس کا نام پاکستان ہے۔ اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ اس دعوے پر یقین کر رہے ہیں۔ جس ملک میں لوگ اس بات پر یقین کر لیں کہ پانی سے گاڑی چل سکتی ہے، وہاں کیا نہیں ہو سکتا۔ حقیقت توصرف اتنی سی ہے کہ لگ گیا تو تیر نہ لگا تو تکہ۔ اگر کوئی موٹاپے کا شکار ہے تو کولیسٹرول، بلڈ پریشر، دل کے امراض بتا دو۔ کوئی مشکل سے چل رہا ہے تو ریڑھ کی ہڈی میں نقص ہو گا۔
بات کسی اور طرف نکل گئی۔ سوشل میڈیا کے عروج کے بعد اب کئی ایلو پیتھک ڈاکٹر بھی اس میدان میں اترے ہیں کہ مریضوں سے اپنے کرشماتی علاج کی تصدیقی وڈیوز بنوائیں۔ مریض کو سامنے بٹھا کر ایسے فاتحانہ انداز میں انٹرویو لیا جاتا ہے، جیسے کوئی شیر کا شکار کر کے اس پہ ٹانگ رکھ کے کھڑا ہو۔ انٹریو شروع یہاں سے ہوتا ہے۔”کتنا عرصہ پہلے آئے تھے؟“ خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ مریض چار ماہ پہلے بسترِ مرگ پر تھا۔ روز انہ چالیس گولیاں پھانکتا تھا۔ اعضائے رئیسہ جواب دے چکے تھے۔ میرے علاج سے راتوں رات گھوڑے کی طرح تندرست ہو گیا۔ اب اسے بے شک مائیک ٹائیسن سے لڑوا لیں۔ باقی زندگی اب اسے کسی دوا کی بھی کوئی حاجت نہیں۔ بندہ پوچھے اتنا صحت مند تو وہ اس وقت بھی نہیں تھا، جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ مریض بنا ہوا شخص آپ کا کارندہ ہے۔
اس طرح تو ”شف شف“ سے روحانی علاج کرنے والا بھی اسی طرح کے گواہ پیش کرتا رہا۔ وہ تو آنکھوں سے کیل بھی نکلواتا تھا۔ آپ تو صرف زبان سے الفاظ نکلوا رہے ہیں۔ چالیس گولیاں پھانکنے والا فولادی صحت کا مالک کیسے بن سکتا ہے۔ علاج علاج ہوتا ہے، کرشمہ نہیں۔ کرشمہ ایک بار ہوتا ہے، ہر بار نہیں۔ یہاں تو کرشمات تھوک میں رونما ہو رہے ہیں۔
ایک مریض کو بیس سال سے کمر کی تکلیف تھی۔ بیرونِ ملک سے آپریشن کروا کے بھی آرام نہ آیا۔ میں نے بغیر ادویات اور آپریشن ٹھیک کر دیا۔ بھائی آپ نے کیا کمپنی سے نئی ریڑھ کی ہڈی منگوا کے ڈال دی ہے؟ یا حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزات میں سے آپ کو کوئی فیض مل رہا ہے، جو باقی ڈاکٹرز کو نہیں مل سکا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اپنے علاج کی گواہیاں مریضوں سے ریکارڈ کرانا اخلاقی طور پر درست ہے؟ غیر معمولی ڈاکٹرز کو کبھی ایسی گواہیوں کی حاجت نہیں رہی۔
سوشل میڈیا پر ایسی کئی کمپینز میں بلند بانگ دعوے کر کے مرغے پھانسے جا رہے ہیں۔ایسے ہی ایک کرشمہ بردار ڈاکٹر نے اب جم بھی کھول لیا ہے۔ اس جم کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ کسرت کرتے ہیں۔ صاف پیغام یہ ہے کہ فل ماحول بن گیا ہے، آجاؤ۔ ان حالات میں مریض صحت یاب ہوں یا نہ ہوں، ڈاکٹر صاحب کی سات نسلیں تر گئی ہیں۔