• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک سیاسی عمل کے ذریعے وجود میں آیا جسکی قیادت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کی،جو ایک سیاسی شخصیت تھے۔ تحریکِ پاکستان اس لحاظ سے بھی ایک منفرد تحریک ہے کہ بیسویں صدی میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف چلنے والی اکثر تحریکوں کے برعکس اس تحریک میں تشدّد یا خونریزی کا شائبہ تک نہ تھا۔ لیکن پاکستان بننے کے فوراََ بعد یہاں اُن طبقوں نے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کی سازشیں شروع کردیں۔ جن کا تحریکِ پاکستان سے کوئی تعلّق نہیں تھا۔ ان غیر سیاسی طبقوں میں بیوروکریسی ، ملٹری ، عدلیہ ، جاگیردار اور مذہبی اشرافیہ کے لوگ شامل تھے ان طبقوں نے ایک منظّم طریقے سے سیاست دانوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے ان کی کردار کشی شروع کردی۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو دن دہاڑے گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ جبکہ قائدِ اعظم کے قریبی ساتھی خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو کرپشن اور گندم اسکینڈل کے الزامات کے تحت برطرف کر دیا گیا۔ مقصد صرف ایک تھا کہ سیاستدانوں کو اتنا بدنام کردیا جائے کہ عوام اُن سے متنفّر ہو جائیں اور غیر سیاسی طاقتوں کیلئے اقتدار کا راستہ ہموار ہوجائے۔ پاکستان میں جمہوریت کو پروان چڑھنے کا موقع دئیے بغیر بار بار قتل کیا گیا اور عوام الناس کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ سیاستدان سب سے بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ حالانکہ انہی کمزور سیاستدانوں نے قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد محلاتی سازشوں کے ذریعے حکومتوں کی بار بار تبدیلی کے باوجود پہلے دس سال میں نہ تو پاکستان کو کسی جنگ میں دھکیلا بلکہ فیروز خان نون کی حکومت کے زمانے میں گوادر کو پاکستان کا حصّہ بنایا۔ جبکہ غیر سیاسی ڈکٹیٹروں نے نہ صرف پاکستان کو ،معیشت کو متعدد جنگوں کے ذریعے کھوکھلا کر دیا بلکہ پاکستان کو اس کے مشرقی حصّے سے بھی محروم ہونا پڑا۔ جب سیاستدانوں نے اپنے باہمی اختلافات ’’میثاقِ جمہوریت ‘‘ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی تو ہماری غیر سیاسی قیادت نے اپنے اینٹی سیاست دان ایجنڈے کو آگے بڑھانےکیلئے عمران پروجیکٹ شروع کردیا جس کے تحت ایک منظم اور وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے باقی سب سیاستدانوں کو چور ڈاکو قرار دے کر اسے ایک مسیحا کا روپ دینے کی کوشش کی۔ حالانکہ 1996میں جب عمران خان نے تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی اس وقت و ہ کم متنازع حیثیت کا مالک تھا۔ پاکستانی ٹیم نے نیا نیا ورلڈ کپ جیتا تھا اور وہ شوکت خانم ہسپتال بنا رہا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے رفاہی کاموں کو بھی اپنی سیاست کیلئے استعمال کیا۔ جبکہ دنیا بھر میں یہ مسلّمہ اصول ہے کہ رفاہی کام کرنے والے سیاست میں حصّہ نہیں لیتے تاکہ ان پر ذاتی مفادات کے حصول کا الزام نہ آئے۔ اپنے ابتدائی 16برسوں میں کم متنازع ہونے کے باوجود عوام نے بطورِ سیاستدان عمران خان کے چور ڈاکو کے نعرے کو کوئی اہمیت نہ دی۔ لیکن جنرل شجاع پاشا اور اسکے ساتھیوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ملکر اس ملک پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ پاکستان کو پروجیکٹ عمران کے ذریعے مستقل طور پر سیاسی عدم استحکام کے حوالے کردیا۔ پرویز مشرف کے جانے کے بعد سیاستدانوں نے انتہائی مشکل سے پاکستانی سیاست میں جو جگہ (Space)بنائی تھی وہ اس پروجیکٹ کی نذر ہوگئی۔ اس کے چار سالہ دور میں پاکستان میں معاشی ، سیاسی اور سماجی تنزّلی کی جو بنیاد یں رکھ دی گئی ہیں، اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ وہ واحد غیر سیاسی سیاستدان ہے جو ’’ دشمن سازی‘‘ میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس کے ساتھ جتنے بھی لوگوں نے سفر شروع کیا تھا آج ان میں سے ایک بھی اس کے اردگرد دکھائی نہیں دیتا۔ کرپشن کو ختم کرنے کے وعدے میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس کے دور میں کرپشن 24درجے بڑھ گئی جس کا سب سے بڑا گڑھ اس کا اپنا گھر تھا۔ آکسفورڈ کا یہ تعلیم یافتہ شخص ضعیف الاعتقادی ، توہم پرستی اور مذہبی بلیک میلنگ کا کھلے عام پرچار کرتا ہے۔ فلسطینیوں کے حق میں ہونے والی آل پارٹی کانفرنس کے بائیکاٹ اور پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں اپنے یہودی برادرِ نسبتی کی حمایت ، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ڈی چوک میں مظاہروں کااعلان ، آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرضہ دینے سے روکنا ، ریاستی اداروں پر یلغار کرنا، کوئی ایسا انتشاری عمل نہیں جو بانی پی ٹی آئی نے نہیں کیا۔ اس کے پیروکاروں میں یا تو وہ نوجوان طبقہ ہے جسے گزشتہ 14سال سے پروپیگنڈے کے ذریعے مسحور کردیا گیا ہے یا بڑی نسل میں وہ لوگ جو پہلے سے ہی اینٹی سیاستدان اور مارشل لا ئوں کے حامی تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان خوفناک فاشزم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ میرا آج کا شعر

عقیدت کو عقیدے میں بدل دینا ہے گمراہی

عقیدہ اور ہوتا ہے، عقیدت اور ہوتی ہے

تازہ ترین