قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیر کو موجودہ قوانین میں ترامیم کے چھ اہم سرکاری بلوں کی کثرت را ئے سے منظوری اتحادی حکومت کی ایک بڑی کامیابی گردانی جائے گی کیونکہ اس کے نتیجے میں اپوزیشن کی جانب سے بعض متوقع یا مفروضہ مشکلات دور ہو جائیں گی جو حکومتی پالیسیوں کے تسلسل میں رکاوٹ بن سکتی تھیں۔ پہلی اہم ترمیم آرمی ،ائیر فورس اور نیوی کے قوانین سے متعلق ہے۔ ان میں ترمیم کر کے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے عہدے کی مدت تین سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اب 2028 تک اپنے منصب پر برقرار رہیں گے۔ اس سے بری فوج کے سربراہ کے عہدے کی مدت میں توسیع کا پرانا تصور ختم ہو جائےگا۔ اب تینوں افواج کے سربراہ ایک خودکار نظام کے تحت پانچ سال تک اپنے عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہیں گے۔ دوسری بڑی ترمیم سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنا ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے اس کا مقصد زیر التوا مقدمات کو نمٹانا بتایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ آئینی عدالت بھی بنانی ہے جس کے لئے ججوں کی تعداد بڑھانا پڑ رہی ہے۔ دونوں ایوانوں میں ترامیم پیش ہوئیں تو اپوزیشن نے شور شرابا تو بہت مچایا مگر قانونی ترامیم کیلئے اپنی تجاویز پیش نہیں کیں۔ اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ گئے۔ نو ‘نو کے نعرے لگائے۔ بل کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں۔ نوبت حکومتی ارکان سے ہاتھا پائی اور گتھم گتھا ہونے تک پہنچ گئی تو صورتحال معمول پر لانے کیلئے سارجنٹ اینڈ آرمز کو ہال میں داخل ہونا پڑا۔ مبصرین نے اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا کہ ہنگامہ آرائی عدالتی اور دوسرے قوانین میں ترامیم پر ہوئی۔ آرمی چیف یا اسٹیبلشمنٹ سے متعلق ترامیم پر خاموشی طاری رہی۔ ایوان سے باہر جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت میں اضافہ انتظامی معاملہ ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے تا ہم غیر شرعی یا غیر آئینی فیصلوں کو ہم نہیں مانیں گے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ترامیم کو ملک میں جمہوریت کی جگہ بادشاہت لانا قرار دیا جبکہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کی رائے میں ان ترامیم سے جمہوریت کو فائدہ پہنچے گا انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت پانچ سال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ عدلیہ سے متعلق ترمیم کے بارے میں ان وزرا کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کسی شخصیت کو سامنے نہیں رکھا گیا ۔ پیر کوپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کئے جانے والے ترمیمی بلوں کی خاص بات یہ تھی کہ حکومت نے ان کے بارے میں غیر ضروری راز برداری برتی، عوام کے سامنے لائی نہ اپوزیشن سے مشاورت کی۔ اپوزیشن نے اس بنا پر اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ جو بات بالآخر عوام کے سامنے آ ہی جانی ہے اسے پوشیدہ رکھنے میں کیا مصلحت تھی یہ تو حکمران ہی جانیں لیکن دنیا بھر میں رائج طریق کار یہی ہے کہ قوانین میں ترامیم کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے انہیں مشتہر کیا جاتا ہے اور اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ پھر ان کی منظوری کیلئے اپنی عددی اکثریت پر انحصار کیا جاتا ہے ۔ حکومت ترامیم سے پہلے ہر عمل مکمل کرتی تو اس کیلئے زیادہ بہتر ہوتا۔ اس سے جمہوری سوچ کو تقویت ملتی۔ انتہائی راز داری برتنے اور اچانک منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے سیاسی عدم استحکام ،انتشار ، بداعتمادی اور بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے گریز کرنا چاہئے۔