امریکا میں ایک سخت اور ہنگامہ خیز انتخابی مہم کے بعد آج امریکی عوام فیصلہ کررہے ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ وائٹ ہاؤس بھیجتے ہیں یا کمالا ہیرس کو۔
امریکا کے ووٹرز کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور طاقتور فوجی قوت کے لیے دو مختلف مزاج اور وژن رکھنے والے امیدواروں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔
82 ملین سے زائد ووٹرز پہلے ہی ووٹ ڈال چکے ہیں جبکہ پولنگ کے دن ووٹرز کا عمل عمومی طور پر ابتک ہموار رہا ہے۔ کچھ جگہوں پر طویل قطاریں، تکنیکی مسائل اور بیلٹ پرنٹنگ میں خرابی کی معمولی رپورٹیں آئیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے پام بیچ، فلوریڈا میں ووٹ ڈالا اور کہا کہ وہ بہت پُر اعتماد محسوس کر رہے ہیں، ریڈ “میگا” کیپ پہنے ہوئے ٹرمپ نے رپورٹرز سے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ ریپبلکنز نے بڑی تعداد میں ووٹنگ کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتائج پر کوئی تقریر تیار نہیں کی اور کہا کہ میں ڈیموکریٹ نہیں ہوں، میں بہت مختصر نوٹس پر تقریر کر سکتا ہوں۔
دوسری طرف ڈیموکریٹک نائب صدر کملا ہیرس نے پنسلوانیا، جارجیا، شمالی کیرولائنا، وسکونسن، ایریزونا، اور نیواڈا جیسے اہم ریاستوں کے ریڈیو اسٹیشنز کو فون انٹرویوز دیے۔
کملا ہیرس اگر منتخب ہوئیں تو وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر بنیں گی اور انہوں نے معیشت اور دیگر مسائل پر باہمی اشتراک سے کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ صدر جو بائیڈن کے طے شدہ راستے سے ہٹ کر کسی بڑی تبدیلی کا ارادہ نہیں رکھتیں۔
امریکا میں اسوقت نو امریکی ریاستوں کے ووٹرز اپنے ریاستی آئین میں اسقاط حمل کے حق کو شامل کرنے یا نہ کرنے پر ووٹ دے رہے ہیں۔
ایریزونا، فلوریڈا، میزوری، نیبراسکا اور جنوبی ڈکوٹا میں آئینی ترامیم کی منظوری سے 70 لاکھ سے زائد خواتین کے لئے اسقاط حمل کی موجودہ پابندیاں ختم ہو سکتی ہیں۔
اسقاط حمل کی قانونی حیثیت اور دستیابی کا انحصار صرف ان ترامیم پر نہیں بلکہ کانگریس اور صدارت کے کنٹرول پر بھی ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی، ریاستی حکومتیں، عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔