اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں ڈھائی فیصد کمی کے اعلان سے جہاں افراط زر میں کمی سمیت کئی مثبت معاشی رجحانات کی نشاندہی ہوئی وہاں معیشت کے انجمادی کیفیت سے باہر آکر زیادہ سرگرم ہونے کے امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کی بریفنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پالیسی ریٹ 17.5فیصد سے کم کرکے 15فیصد پر لانے کے فیصلے سے سودی اخراجات میں مجموعی طور پر 1.3ٹریلین (13کھرب) روپے کی بچت متوقع ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً ایک فیصد بنتا ہے۔مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی ہے اور اکتوبر میں اپنے وسط مدتی ہدف کے قریب پہنچ گئی۔ غذائی مہنگائی میں تیز رفتار کمی سمیت کئی عوامل اس صورتحال کا سبب بنے جبکہ توقع کی جارہی ہے کہ سال 2024ء کیلئے اوسط مہنگائی پچھلی پیش گوئی کی حد 115تا135فیصد سے نمایاں کم رہے گی۔ یہ منظر نامہ مشرق وسطیٰ کی کشیدگی ، غذائی مہنگائی کے دبائو کے دوبارہ ابھرنے، سرکاری قیمتوں میں ایڈہاک ردّوبدل اور محصولات کی وصولی میں کمی کی وصولی کے لئے ہنگامی ٹیکس اقدامات کے خطرات سے مشروط ہے ۔ یاد رہے کہ شرح سود میں جون کے بعد یہ مسلسل چوتھی کٹوتی ہے جس کی بنیادی وجوہ مہنگائی میں کمی، کم کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور زیادہ تر سیلات ہیں۔ شرح سود میں ڈھائی فیصد کمی کے اس فیصلے کا فوری اثر اسٹاک مارکیٹ میں قائم نئے ریکارڈ کی صورت میں ظاہرہوا۔ کے ایس ای 100انڈیکس 1078پوائنٹس اضافے کے ساتھ 91ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کرگئی۔ جبکہ زائد شرح سود کے باعث بینکوں میں لوگوں کی رکھی ہوئی رقوم کاروں کی خریداری سمیت مختلف حوالوں سے گردش میں آنے کی توقع ہے۔کم شرح سودمیں کمی کے باعث صنعتوں اور زراعت کیلئے بینکوں سے قرض لینے کارجحان اور معاشی سرگرمی بڑھنے کا امکان ہے۔