وطن عزیز میں ایک عرصے سے دہشت گردی کے خطرات کا تعلق بنیادی طور پر سرحد پار سے ہے۔ دہشتگرد کون ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں قیام پذیر ہوتے ہیں؟ کس ملک کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں اور کہاں سے فنڈنگ ہوتی ہے؟ یہ حقائق اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ دہشتگرد افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کے ڈانڈے بھارت سے جا کر ملتے ہیں۔ پاک فوج دہشتگردی کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہے اور وہ اب تک سیکڑوں خوارج کو واصل جہنم کر چکی ہے۔ گزشتہ روز افغانستان سے جنوبی و شمالی وزیرستان میں دراندازی کی تازہ کوشش ہوئی جسے پاک فوج نے ناکام بناتے ہوئے چھ دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ تین زخمی ہوئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلسل افغان عبوری حکومت کے ساتھ موثر بارڈر مینجمنٹ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو خارجی دہشتگردوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کیلئے استعمال ہونے سے روکے گی۔ پاکستان کی جانب سے یہ مسئلہ مستقل اٹھایا جا رہا ہے مگر افغانستان اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہے۔ دشتگردانہ کارروائیوں کیلئے افغان سرزمین کا استعمال ہونا انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان میں تعینات افغان ناظم الامور مولوی سردار احمد شکیب نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک سیمینار میں اس امر کی صراحت کی تھی کہ کچھ عناصر پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں لیکن یہ ہماری (افغانستان) پالیسی نہیں۔ سرحدی دراندازی کوئی نئی چیز نہیں اگر ہم اس پر قابو پانا چاہیں تب بھی یہ ناممکن ہو گا۔ کسی افغان کو کسی ہمسایہ ملک میں جہاد کی اجازت نہیں دیتے اس حوالے سے باقاعدہ فتوے بھی جاری ہو چکے ہیں۔ یہ وضاحت کافی نہیں۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر میں افغانستان سے سمگل کئے جانے والے غیر ملکی اسلحہ کا استعمال بھی افغان عبوری حکومت کے دعوئوں پر سوالیہ نشان ہے۔ دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے سخت بارڈر مینجمنٹ انتہائی ضروری ہے اس حوالے سے تعاون کا فقدان کیوں؟