26ویں آئینی ترمیم کے تحت نوتشکیل شدہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے منگل 5نومبر کو چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی صدارت میں منعقدہ اپنے پہلے اجلاس میں جو سات رکنی پہلا آئینی بنچ تشکیل دیا، وہ ایسی پہل کاری ہے جس کے نتائج پر پاکستان میں ہی نہیں، دوسرے ملکوں کےقانونی حلقوں میں بھی نظر رکھی جائے گی۔ ابتدائی طور پر دو ماہ کے لئے تشکیل دیئے گئے بنچ کے سربراہ سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان نامزد کئے گئے ہیں جبکہ بنچ کے دیگر چھ نامزد ارکان میں پنجاب سے جسٹس عائشہ ملک، سندھ سے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، بلوچستان سے جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نسیم اختر افغان، خیبرپختونخوا سے جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے اعلامیہ کے بموجب کمیشن کے حاضر 12اراکین میں سے 7اراکین نے جسٹس امین الدین کی نامزدگی کے حق میں جبکہ 5اراکین نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ ذرائع کے مطابق مخالفت کرنے والوں میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، عمر ایوب اور شبلی فراز شامل ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں ملک کے پہلے آئینی بنچ کی تشکیل کو عدالتی نظام میں ایسی پیشرفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے ایک طرف اعلیٰ عدلیہ پر آئینی نوعیت کے مقدمات کا بوجھ کم کرکے دیگر مقدمات کے جلد فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان بعض تلخیوں کا مداوا ہونے کی امید کی جاتی ہے۔ اس باب میں سیاسی حلقوں میں عرصہ سے چہ میگوئیاں جاری تھیں۔ جمہوری نظام میں پارلیمان کو سب سے بڑے ادارے کی حیثیت حاصل ہے جو قانون سازی کا کام کرتی ہے۔ عدلیہ قانون کی تشریح کرتی ہے۔ اس باب میں اختلاف نظر اگر کسی وقت نظر آتا ہے تو یہ فطری بات ہے۔ مگر عدلیہ اور پارلیمان سمیت تمام ادارے جس آئین کے تحت وجود میں آئے ہیں، انہیں اس کی پاسداری بہر طور کرنا چاہئے۔ پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ عدلیہ پر حاوی محسوس ہوتی تھی جبکہ عدلیہ تحریک کے بعد سے تسلسل کے ساتھ عدلیہ ریاست پر غالب آتی محسوس ہوئی اور پارلیمانی حلقوں کی طرف سے اس باب میں قانون سازی کی ضرورت ظاہر کی گئی۔ ریاست تمام اداروں کے توازن کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور کسی ادارے کا ردّعمل اتنا شدید نہیں ہونا چاہئے کہ عدلیہ کونے میں نظر آئے۔ عدلیہ کا کردار جہاں لامحدودیت کی حدود کی طرف نہیں جانا چاہئے وہاں اتنا محدود بھی نہیں ہونا چاہئے کہ معاشرے کا اعتدال متاثر ہو۔ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ جمہوری نظام ہر فرد کے حصول انصاف کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بہت سے آئینی امور ایسے ہنگامی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کے باعث ریاست اور نظام کے معاملات جاری رکھنے کے لئے جلد فیصلے ضروری ہوتے ہیں۔ ان مقدمات کی ہنگامی نوعیت دوسرے ایسے مقدمات میں التوا کا باعث بنتی ہے جن میں جلد دادرسی متعلقہ فرد یا فریق کے لئے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اب پاکستان میں آئینی بنچ کی تشکیل ہوئی ہے تو ایک جانب دیگر مقدمات کے جلد فیصلے آنے کے امکانات نمایاں ہوئے۔ دوسری طرف ان لوگوں میں بھی امید کی لہر پیدا ہوئی ہے جو عدالتی طریقہ کار کی پیچیدگیوں اور بھاری اخراجات کے بوجھ کی استطاعت سے محروم ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد حصول انصاف کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کی ہمت ہی نہیں کرتی۔ ہمارے پارلیمانی و قانونی حلقوں کو ایسے لوگوں کی دادرسی کا راستہ نکالنے میں بھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔