امریکا کے اقتصادی مرکز نیو یارک میں پاکستانی امریکن امیدوار عامر سلطان کو ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اس بار انہیں غزہ جنگ لے ڈوبی۔
امریکی پاکستانی ری پبلکن کے مقابلے میں 16 برس سے اس حلقے کی نمائندگی کرنے والے ڈیموکریٹک حریف اسٹیو اسٹرن کو کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوا، اس بار وہ دو گنا مارجن سے جیت گئے۔
خوشدلی سے شکست تسلیم کرتے ہوئے عامر سلطان نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ وہ ان تمام ووٹرز اور سپورٹرز کے شکر گزار ہیں جنہوں نے انتخابی مہم میں ساتھ دیا، ووٹ ڈالنے نکلے اور حق میں نتائج نہ ہونے کے باوجود اپنا قیمتی وقت نکال کر حوصلہ افزائی کیلئے آئے۔ عامر سلطان نے مستقبل کے حوالے سے سیاسی حکمت عملی بھی بتائی۔
پاکستانی امریکن عامر سلطان نیویارک کے حلقہ نمبر دس سے ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار تھے۔ انہوں نے 26 ہزار 241 ووٹ لیے جو 44 اعشاریہ 1 فیصد ہیں۔
عامر سلطان کے ڈیموکریٹک حریف اسٹیو اسٹرن 33 ہزار 200 ووٹ لے کر اپنی نشست کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے جو کہ 55 اعشاریہ 8 فیصد بنتے ہیں۔ اس طرح پاکستانی امریکن امیدوار کو 7 ہزار ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
عامر سلطان نے لانگ آئی لینڈ کے جس حلقے سے یہ الیکشن لڑا وہاں مجموعی آبادی ایک لاکھ 34 ہزار افراد پر مشتمل ہے، اس علاقے میں انتہائی امیر آبادی ہے اور مذہبی لحاظ سے دیکھیں تو یہ یہودیوں کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔
عامر سلطان کے حریف اسٹیو اسٹرن مذہبی لحاظ سے یہودی ہیں۔ ایک ری پبلکن رہنما نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ الیکشن میں غزہ جنگ اور مذہبی کارڈ بھی پلے کیا گیا۔
اگرچہ نمائندہ جنگ اپنے ذرائع سے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر سے اس بات کی تصدیق یا تردید حاصل نہیں کرسکا تاہم اس ری پبلکن رہنما نے دعویٰ کیا کہ ڈیموکریٹک امیدوار کی جانب سے جو اشتہاری پمفلٹ بانٹے گئے ان میں عامر سلطان کو انتہاپسند اور خطرناک شخص قرار دیا گیا تھا۔
مبینہ طور پر ایسی اشتہاری مہم کی جانب سے یہودیوں کیلئے اسٹیو اسٹرن کے مقابلے میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینا مشکل بنا دیا گیا۔
اس سوال پر کہ آیا عامر سلطان اپنا اصل امیج کیوں لوگوں پر واضح نہ کرسکے؟ ری پبلکن لیڈر نے کہا کہ عامر سلطان نے اپنے پملفٹ جاری کر کے پالیسیوں سے لوگوں کا آگاہ کرنے کی ہر ممکن کوشش تو کی مگر فنڈز کی کمی آڑے آئی کیونکہ امریکا میں الیکشن کیلئے ڈالر پانی کی طرح بہانا پڑتے ہیں۔
انہی ری پبلکن رہنما نے بتایا کہ مئی میں ایک اور پاکستانی امریکن نادیہ پرویز کے ساتھ بھی یہی یعنی اَس وَرسز دیم کی صورتحال پیش آئی تھی تاہم وہ تین ووٹوں کے فرق سے اسکول بورڈ کی رکن بننے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔
اس سوال پر کہ آیا اس بار جنوب ایشیائی کمیونٹی کے افراد کتنی تعداد میں ووٹ دینے آئے؟ عامرسلطان نے کہا کہ ابھی سرکاری طور پر اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے، اس لیے کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
عامر سلطان کے حلقہ نمبر 10 میں تقریباً ایک لاکھ ووٹرز ہیں جن میں سے جنوب ایشیائی ووٹرز کی تعداد تقریباً دس سے گیارہ فیصد ہے۔ عامر سلطان اس بار تقریباً سات ہزار ووٹوں سے ہارے ہیں۔
عامر سلطان 2022ء میں بھی اس حلقے سے ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑچکے ہیں جس میں اسٹیو اسٹرن کو 26 ہزار 6 سو 46 ووٹ ملے تھے اور عامر سلطان 22 ہزار 3 سو 52 ووٹ لینے میں کامیاب رہے تھے۔
عامر سلطان نیویارک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ ہیں اور سماجی و سیاسی لحاظ سے انتہائی فعال امریکن پاکستانیوں میں سے ایک ہیں۔
پبلک سروس کے حوالے سے دیکھا جائے تو عامر سلطان سفک کاؤنٹی میں ایشین امریکن ایڈوائزری بورڈ کے ایگزیکٹو ممبر ہیں جہاں وہ پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ ہنٹنگٹن میں ایشین امریکن ٹاسک فورس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں جبکہ اربن لیگ آف لانگ آئی لینڈ کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔
ان کا آبائی تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ سابق آرمی چیف اور سابق صدر پرویز مشرف کے انتہائی قریبی عزیز بھی ہیں۔
اس سوال پر کہ آیا مستقبل میں وہ سیاست جاری رکھیں گے؟ عامر سلطان نے یہ شعر پڑھا:
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
عامر سلطان نے کہا کہ انکی نظر اگلے انتخابات پر ہے اور وہ زیادہ تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے، انہیں یقین ہے کہ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ کر وہ عوامی عہدہ حاصل کرلیں گے۔