مظہر برلاس کےدورہ ِ امریکہ کے کالم ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح یابیوں کی پیشین گوئیوں سے بھرے رہے۔ جو سچ ثابت ہوئیں اوروہ امریکی صدر منتخب ہوگئے ۔دوسری طرف محترم عرفان صدیقی نے صدر ٹرمپ کی فتح کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ۔ ’’اُدھر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا، اِدھر اڈیالہ جیل کا درِ زنداں کھُلا، ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر میں آئے گا تو اُس کا اسٹاف انتخابی منشور اور ایجنڈے کے نمایاں نکات پر مشتمل دستاویز پیش کرے گا۔ ٹرمپ، یوکرین جنگ کے خاتمے، تارکینِ وطن کی بے دخلی، ٹیکس اور بیوروکریسی اصلاحات، اسرائیل کی مزید مدد اور بین الاقوامی معاملات کی صورت گری جیسے نکات پر سرسری نگاہ ڈالے گا۔ پھر غصّے سے فائل فرش پر پھینکتے ہوئے اے ڈی سی کو حکم دے گا کہ اسلام آباد بات کراؤ۔‘‘یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں اس مرتبہ امریکی انتخابات کو بڑی باریک بینی سے دیکھا گیا ۔پی ٹی آئی سے متعلقہ لوگوں نےٹرمپ کی فتح کیلئےمیں دعائیں مانگیں، جنہیں قبولیت حاصل ہوئی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ہار گئی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیلئے امریکی انتخابات بڑے اہم تھے۔ نون لیگ کی لیڈر شپ بھی اس وقت ٹرمپ کے خلاف کیے ہوئے ٹویٹ ڈیلیٹ کرتی پھرتی ہے کیونکہ وہ بھی دیکھتے تھے کہ صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں جو کیپ پہنتے ہیں اس پر پینتالیس اور سینتالیس کے عدد لکھے ہوتے ہیں۔ جو بغیر کسی سبب کے پاکستانی حکومتی عہدہ داروںکامنہ چڑاتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی سے وعدہ کیا تھا کہ صدر بن کر وہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرائیں گے۔ امریکی کانگریس تو پہلے بھی پی ٹی آئی کے بانی کی رہائی کیلئے قرارداد منظور کر چکی ہے مگراس قراداد پر عمل درآمد صدر جوبائیڈن نے نہیں کرایا تھا۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنےوالے کچھ پاکستانی صدر ٹرمپ کے بہت قریب ہیں، انہیں امریکی حکومت میں اہم عہدہ ملنے کے بھی امکانات ہیں۔ شاید اب بانی پی ٹی آئی کو جیل سے باہر نکالنا پڑے گا۔
عمران نے انہیں صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکبادبھی دی ہےاور امید ظاہر کی کہ ٹرمپ عالمی سطح پر امن، انسانی حقوق اور جمہوریت کیلئے زور دیں گے۔ یعنی عمران خان کے معاملہ پر امریکی دبائو بڑھنے کا واضح امکان ہے۔توقع ہے امیگریشن اصلاحات، اقتصادی تحفظ پسندی اور غیر ملکی تنازعات میں امریکی مداخلت کو کم کرنے جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وہ اپنے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ ایجنڈے کو تقویت دیں گے۔ ان کی پالیسیاں ممکنہ طور پر سخت امیگریشن کنٹرول، توانائی کی آزادی اور امریکہ چین مسابقت پر مرکوز ہوں گی، جس سے عالمی سطح پر تجارتی اور جغرافیائی سیاسی اتحاد متاثر ہونگے۔ ٹرمپ کی فتح امریکی خارجہ پالیسی کو تبدیل کر سکتی ہے، زیادہ تر اتحادیوں اور مخالفین جیسے نیٹو پارٹنرز، روس اور چین کے ساتھ۔ اس کا نقطہ نظر ممکنہ طور پر کثیر الجہتی معاہدوں پر دو طرفہ سودوں پر زور دے گا اور لین دین کے تعلقات کو ترجیح دے گا۔ یوکرائن اور روس کی جنگ کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے ۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاملات طے کرانے کی بھی صدر ٹر مپ پوری کوشش کریں گے۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے، اس تبدیلی کا مطلب امریکی موقف کو اپنانا ہو سکتا ہے جو جنوبی ایشیا کے علاقائی تنازعات میں کم ملوث ہے لیکن چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جس سے پاکستان کا اقتصادی اور سفارتی توازن متاثر ہوتا ہے۔یقیناً اب تجارت، سلامتی، علاقائی استحکام اور اقتصادی امداد جیسے شعبوں پرٹرمپ کی پالیسی کےاثرات مرتب ہونگے۔ اپنی پچھلی مدت کے دوران، ٹرمپ نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ فوجی امداد کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں کے بعد حالات بہتر ہوئے توانہوں نے پاکستان پر انحصار کرتے ہوئے، افغان طالبان کے ساتھ تاریخی امن عمل کا آغاز کیا تھا۔ موجودہ صورتحال میں صدر ٹرمپ اپنی باتیں تسلیم کرانے کیلئے پاکستان پردباؤ ڈال سکتے ہیں، خاص طور پر بانی پی ٹی آئی اورسرحد پار عسکریت پسندی کے حوالے سے۔
صدرٹرمپ طویل تنازعات سے امریکی انخلاکی بات کرتے آئے ہیں امریکی فوجی مصروفیت کے خاتمے کے خواہاں رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا یہ دوسرا دور پاکستان سے اسٹرٹیجک تعلق میں توازن پیدا کر سکتا ہے، صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا تھا اور اسی کے نتیجے میں امریکی فوجیں افغانستان سے واپس گئی تھیں۔ اگر بانی پی ٹی آئی کو رہا کر دیا گیا تو صدر ٹرمپ امریکہ اور پاکستان کے براہ راست فوجی تعلقات کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے پچھلے دور میں ان کی ’’امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی کے تحت، تجارتی اور ٹیکنالوجی کے تنازعات میں شدت کے سبب، امریکہ اور چین کے تعلقات نچلی سطح کو چھو گئے تھے۔ لگتا ہے وہ چین کے خلاف اپنا سخت رویہ جاری رکھیں گے مگر روسی پیوٹن کیلئے انکے دل میں نرم گوشہ موجود ہے۔ صدر ٹرمپ پاکستان کو چینی اقتصادی منصوبوں سے دور کرنے پر بھی مجبور کر سکتا ہے، اب اسلام آباد کو اپنے تزویراتی اہداف پر محتاط انداز میں غور کرنے کی ضرورت ہو گی، علاقائی سلامتی کے خدشات کو دور کرتے ہوئے امریکا اور چین کے ساتھ اپنی شراکت داری میں توازن پیدا کرنا ہو گا۔ پاکستان کی قیادت کو ابھرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے سے احتیاط کے ساتھ رجوع کرنے کی ضرورت ہو گی، کیونکہ واشنگٹن میں کیے گئے فیصلے اسکے ملکی اور خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پر دیرپا اثر ڈال سکتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ اور چین جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے، علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے اور اقتصادی ترقی کو محفوظ بنانے پر زور دیتی ہے۔ ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب اس توازن کو چیلنج کر سکتا ہے۔ پاکستان، چین کا قریبی اتحادی ہے اور امریکہ چاہے گا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں پر اپنے مؤقف کا از سر نو جائزہ لے اور انہیں امریکی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرے ۔ یہ دباؤ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کشیدہ بھی کر سکتا ہے، جو اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں ایک اہم شراکت دار ہے یعنی اس وقت پاکستان کو بانی پی ٹی آئی کی ضرورت ہے۔