مہلک خاندانی بے خوابی ایک ایسی نایاب جینیاتی بیماری ہے جو نیند میں دشواری، ڈائمینشیا اور شدید جسمانی اور ذہنی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے اور اس بیماری میں مبتلا مریض کی حالت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جاتی ہے۔
اس حوالے سے کلیولینڈ کلینک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے اثرات کو علاج کے ذریعے عارضی طور پر کچھ کم کیا جا سکتا ہے۔
نیشنل آرگنائزیشن آف ریئر ڈس آرڈرز کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال مہلک خاندانی بے خوابی (Fatal familial insomnia) سے 1 سے 2 افراد متاثر ہوتے ہیں۔
یہ بیماری والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 50 سے 70 خاندان اس سے متاثر ہیں۔
لائیو سائنس کے مطابق یہ بیماریPRNP جین میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتی ہے جو پرایئن پروٹین پیدا کرتا ہے، پرایئنز عام پروٹین کا غلط فولڈ ورژن ہیں اور ان کی غیر معمولی شکل جسم کے خلیات، خاص طور پر دماغ کے نیورونز کو زہریلا بناتی ہے۔
یہ بیماری زیادہ تر والدین سے بچوں منتقل ہوتی ہے لیکن کچھ مخصوص صورتوں میں ایسے افراد بھی اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں جن کے خاندان میں ان سے پہلے یہ بیماری کسی کو نہ لگی ہو۔
مہلک خاندانی بے خوابی کی سب سے نمایاں علامت نیند میں دشواری ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ صورتحال اتنی بگڑ جاتی ہے کہ مریض کو بالکل بھی نیند نہیں آتی۔
ان مریضوں کو یادداشت میں کمی، ہائی بلڈ پریشر، فریب نظر اور پٹھوں میں تکلیف کا سامنا بھی ہوتا ہے، ان مریضوں کو بہت زیادہ پسینہ بھی آ سکتا ہے اور یہ ہم آہنگی اور ارتکاز بھی کھو سکتے ہیں۔
یہ علامات 40 سال کی عمر کے آس پاس ظاہر ہوتی ہیں لیکن کچھ افراد میں یہ علامات 20 سال کے بعد اور کچھ افراد میں 70 سال کے بعد بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔
اس بیماری میں مبتلا مریض آخر کار کوما جیسی حالت میں چلا جاتا ہے اور عموماََ بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد 9 سے 30 ماہ کے عرصے میں ابدی نیند سو جاتا ہے یعنی یہ بیماری مریض کی موت کا باعث بن جاتی ہے۔