سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کا کہنا ہے کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔
رضا ربانی کا کہنا ہے کہ رپورٹس کے مطابق اکتوبر میں 28 اضلاع میں 48 دہشت گرد حملے ہوئے، ان حملوں کے نتیجے میں 100 افراد جاں بحق اور 80 زخمی ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں اب سندھ اور پنجاب میں بھی بڑھ رہی ہیں، سندھ اور پنجاب میں غیر ملکی شہریوں پر بھی حملے کیے گئے ہیں، تمام جماعتیں ذاتی مفادات اور بیان بازی چھوڑ کر دہشت گردی کے بڑھتے مسئلے پر توجہ دیں۔
انہوں نے ہدایت کی کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو شدت پسندوں کی سرگرمیوں اور ان کی مدد کرنے والے غیر ملکی عناصر پر بریفنگ دیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا انتخاب کیا جائے، قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں دونوں ایوانوں کی ہر جماعت کی نمائندگی ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کو انٹیلیجنس ایجنسیز کی جانب سے بریفنگ دی جائے، انہیں دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے آگاہ کیا جائے، جبکہ پارلیمانی کمیٹی بریفنگ کے بعد نیشنل ایکشن پلان میں ترامیم، اصلاحات یا سفارشات پیش کرے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی تجاویز پر مشترکہ اجلاس میں بحث ہو اور انہیں اپنایا جائے، قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی داخلی اور خارجی صورتِ حال پر نظر رکھے۔
سابق چیئرمین سینیٹ کا کہنا ہے کہ سینیٹ کی کمیٹی آف دی ہول خیبر پختون خوا کے عوام کے مسائل پر قومی مکالمہ شروع کرے، کمیٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کی سماعت کے بعد ان سفارشات کے نفاذ کی نگرانی بھی کرے۔
رضا ربانی کا کہنا ہے کہ سینیٹ کمیٹی آف دی ہول بلوچستان کے حقوق سے متعلق اقدامات کا جائزہ لے کر بلوچستان کے حقوق سے متعلق قومی مکالمے کا آغاز کرے۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی ان قوم پرستوں سے مذاکرات کرے جو آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مسائل کا حل چاہتے ہیں، ان مسائل کو حل کر کے ان کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے، سینیٹ کی کمیٹی آف دی ہول لاپتہ افراد سے متعلق سابقہ قرار دادوں اور سفارشات کا جائزہ لے اور ان کا نفاذ یقینی بنائے۔
پیپلز پارٹی رہنما کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کیے جائیں تاکہ متفقہ حل تلاش کیا جا سکے، مقامی حکام کو بھی عمل میں شامل کیا جائے تاکہ لاپتہ افراد سے متعلق ڈیٹا فراہم کیا جا سکے، وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 172، خصوصاً شق (3) کے نفاذ کے لیے شفاف طریقہ کار قائم کرے۔