میں کوئی اٹھارہ سال برطانیہ میںرہاہوں ۔میرا ذہن آج جب غزہ کے شہیدوں پر ماتم کناں تھا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں بلیک کنٹری کے شہر ڈڈلی کی بڑی مسجد میں بیٹھا ہواہوں۔یہ مسجد ہائی اسٹریٹ کے آغاز کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہے، اسی ہائی اسٹریٹ کے آخر میں ایک بلند قامت چرچ ہے جس کے نوک دار مینار کے سائے میں محمد علی جناح ہال بھی ہے اور اس کے قرب و جوارمیں ایک سینی گال بھی موجود ہے ۔ میں مسجد ، چرچ اور سینی گال کے درمیان ہونے والے مکالمے کو سن رہا ہوں۔ میری سماعت صدیوں پر محیط ہوتی جارہی ہے میری بصارت زمانوں کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے ۔ میں برطانیہ کے بین المذہبی اور بین الثقافتی معاشرے میں بیٹھ کر ان تینوں عالمگیر مذاہب کے بیچ جتنی قربتیں ہیں انہیں محسوس کر رہا ہوں ۔ ابراہیم علیہ السلام کی چوکھٹ پر ان تینوں راستوں کو ایک ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں ۔ ہم برطانیہ میں رہنے والوں کازندگی نامہ بظاہر تو اس سفر کی روداد ہے جو برطانیہ کے بہشت گناہ آباد سے شروع ہو کرمدینہ کے لاہوتی ماحول میں مکمل ہو جاتاہے، درمیان میںخانہ کعبہ بھی آتاہے اور قبلہ اول بھی ۔داتا گنج بخش اور نوشہ گنج بخش سے لے کر میاں محمد بخش کی آواز بھی سنائی دیتی ہے ۔مگر ہم وہاں اسلامی تصوف پر عمل کرتے ہوئے سب کو سینے کے ساتھ لگاتے ہیں ۔میں ہمیشہ یہی سوچتا رہا ہوںکہ برطانیہ میں یہ مذہبی بھائی چارہ کیوں ہے ۔ کیا یہ یروشلم میں نہیں ہو سکتا ۔کیا وہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان امن سے نہیں رہ سکتے ۔وہاں کیوں مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔اس وقت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے غزہ میں جنگ میں مارے جانے والے شہریوں کی بڑی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چھ ماہ کے عرصے کے دوران تصدیق شدہ متاثرین میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے تھے۔اور اس کی وجہ اسرائیل کی جانب سے گنجان آبادی والے علاقوں میں خوفناک ہتھیاروں کا استعمال ہے۔ مرنے والوں میں سب سے زیادہ عمریں پانچ سے نو سال کی تھیں۔تقریباً 80 فیصد متاثرین رہائشی عمارتوں یا اسی طرح کے مکانات میں شہید ہوئے۔اقوام متحدہ کے مطابق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کےبے مثال نمونے یہاں دیکھنے کو ملے ۔’’جنگی جرائم اور دیگر ممکنہ مظالم کے جرائم‘‘ گزشتہ چھ ماہ میں ہوئے ۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ غزہ کی حماس کے زیرانتظام وزارت صحت، جس کے اعداد و شمار کو اقوام متحدہ قابل اعتماد سمجھتا ہے، اس نے گزشتہ 13 ماہ کے دوران 43,300 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مزید کئی لاشیں بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں ۔یہ اعداد و شمار شہریوں کی ہلاکت اور جنگ کے ذرائع اور طریقوں کے اثرات کے بارے میں ظاہری بے حسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔وزارت صحت کے مطابق جب ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا مکمل آبادیاتی ڈیٹا حاصل کیا توپتہ چلا کہ مرنے والوں میں سے تقریباً 70 فیصد فلسطینی بچے اور خواتین ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہریوں کے قتل اور زخمی ہونے کی یہ بے مثال سطح بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کی تعمیل میں ناکامی کا براہ راست نتیجہ ہے تو اس پر اقوام متحدہ نے کیا ایکشن لیا۔ صدر ٹرمپ کے آنے سے یہ امید کی جارہی ہے کہ غزہ اور لبنان میں جنگ ختم ہو گی مگر کب ہو گی ، کیسے ہو گی ۔ایران کیا کرے گا۔میرے نزدیک ٹرمپ کےلئے سب سے مشکل مسئلہ یہی ہے ۔اطلاعات کے مطابق ٹرمپ مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کےلئے سعودیہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر کوئی پلان رکھتا ہے مگر کیا اسے لبنان اور ایران تسلیم کریں گے۔غزہ میں امدادپہنچانے والوں کےلئے ابھی وہی مسائل ہیں ۔اس سلسلے میں میری المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ عبدالرزاق ساجد سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی ہر ممکنہ کوشش یہی رہتی ہے کہ غزہ میں امداد نہ پہنچ سکے ۔حالانکہ ہماری امداد صرف فوڈ اور ادویات پر مشتمل ہوتی ہے مگراس سلسلے میں بھی اسرائیل کا کردار بہت ظالمانہ ہے۔
عالمی غذائی تحفظ کے ماہرین نے اقوام متحدہ کو متنبہ کیا ہے کہ ایک ماہ سے جاری اسرائیلی فوجی محاصرے کے دوران شمالی غزہ میں قحط کو روکنے اور اس تباہ کن صورتحال کو کم کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے مگر اقوام متحدہ صرف رپورٹیں پیش کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کررہی۔اس پر احتجاج کرتے ہوئے غزہ میں برطانوی کارکن کی بھوک ہڑتال کو آج دو ہفتے ہو گئے ہیں ۔غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے لیے برطانیہ کی حمایت پر لیزی گرین ووڈ کی بھوک ہڑتال دو ہفتے کے نشان کے قریب ہے۔ پارلیمنٹ کے سابق امیدوار اور ہولوکاسٹ ایجوکیشن ٹرسٹ کے نوجوان سفیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ان کے پاس اس طرح کے سخت اقدام کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔صرف لبنان میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 3117 افراد ہلاک اور 13,888 زخمی ہو چکے ہیں۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمان کیا کررہے ہیں ۔میرے خیال میں ہماری بےحسی ناقابل معافی ہے۔امت ِ مسلمہ کے ماتھے پر مسئلہ فلسطین کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں ۔پاکستان کو بھی اس وقت بہت اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے میرے خیال میں وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کو فوری طور پر لبنان کا دورہ کرنا چاہئے اوروہاں جا کر دنیا کو بتانا چاہئے کہ پاکستان مکمل طور پر فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور یہ جنگ فوری طور پر بند نہ ہوئی تو پاکستان بھی اس میں شریک ہو سکتا ہے۔