میں نے ایک بیروزگار دوست کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی غربت کے خاتمے کیلئے پیری مریدی کا کاروبار شروع کر دے مثلاً جسے جن ’’چمٹا‘‘ ہو اس کا جن نکالنے کیلئے ’’دم‘‘ وغیرہ کرنا، محبوب کا عاشق کے قدموں میں آکر گرنا، بےاولاد کو اولاد دینا اور سب سے بڑھ کر بیروزگار کو روزگار کے حصول کا وظیفہ بتانا وغیرہ۔
اس نے میری تجویز کو پسند کیا مگر بولا کہ اس کاروبار کے فروغ کیلئے بہت سرمایہ چاہئے، وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ مثلاً جن والے ڈرامے کیلئے چار پانچ بندے کرائے پر لینا، ان میں سے ایک جو ظاہر کرے کہ اسے جن چمٹا ہوا ہے، اس کی فیس، باقی چار بندوں کی فیس جو اسے قابو سے باہر رکھنے کی اداکاری پر قابو پانے کیلئے اسے جکڑ کر رکھیں، جسے جن چمٹا ہو اس کا اداکار ہونا ضروری ہے، منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالے گا، منحوس قسم کی شکلیں بنائے گا، خود پر قابو پانے والوں پر ہاتھ پائوں چلائے گا، اس طرح اس پر قابو پانے کی کوشش کرنے والوں کا ’’ہَڈپیر‘‘ سے بہت مضبوط ہونا ضروری ہے اور یوں ان کی فیس بھی معقول ہوگی۔ میں نے کہا: یہ سب درست ہے مگر جب بھی کوئی نیا کاروبار شروع کیا جائے اس پر بنیادی سرمایہ کاری تو کرنا ہی پڑتی ہے مگر جب تم ’’جن‘‘ کو دھمکیاں دو گے کہ میرے اس چاہنے والے کے جسم سے نکل جائو، ورنہ تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گا تو اس کیلئے تمہاری اچھی اداکاری بھی ضروری ہے، اس کے بعد کسی شاعر کے لایعنی سے شعر پڑھ کر اس پر پھونکنا وغیرہ شروع کر دے۔ ’’جن‘‘ تمہیں ڈرانے کی کوشش کرے گا مگر تم نے ڈرنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق کر رہا ہوگا اور پھر ایک وقت آئے گا جب اس کی اکڑ فوں آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی اور وہ بیہوش ہو کر گر پڑے گا، تم اسے دوبارہ ہوش میں لائو گے اور اسے کلمہ پڑھنے کے لیے کہو گے، وہ کلمہ پڑھے گا اور تمہارے پائوں میں گر جائے گا، تم حاضرین کو بتائو گے کہ یہ جن کافر تھا کیونکہ میں نے ایک مسلمان بھائی کو اس کے چنگل سے نکالنا اور اس کے علاوہ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی تعداد میں ایک اور مسلمان کا بھی اضافہ کیا، اس کے بعد دیکھنا تمہاری شہرت کہاں کہاں پہنچے گی۔
میں نے اسے بتایا کہ تمہاری پیری مریدی کا ایک اور ’’آئٹم‘‘ بےوفا محبوب کو عاشق کے قدموں پر گرانا ہے، یہ سن کر میرا یہ بیروزگار دوست زار و قطار رونے لگا کہ خود مجھ سے بےوفائی ہوئی ہے اور ماضی میں محبوب کے بھائی سے لے کر اس کے گرد و نواح کے لوگوں کو بہت پیسے کھلا بیٹھا ہوں مگر میرا کچھ نہیں بنا، میں نے اپنے رومال سے اس کے آنسو پونچھے اور کہا دل چھوٹا نہ کرو جب تم نے اپنے تعویذ گنڈوں سے ایک ہزار عاشقوں میں سے کسی ایک عاشق کی آرزو پوری کر دی تو وہ تمہارا اتنا پرچار کرے گا کہ تمہاری ڈوبی ہوئی سرمایہ کاری تمہیں واپس مل جائے گی، جن پر تمہارے تعویز گنڈے کا کوئی اثر نہیں ہوگا، وہ بھی تمہیں نہیں اپنی قسمت کو کوسیں گے۔ یہ سن کر میرے بےروزگار دوست کو کچھ اطمینان ہوا اور کہا اس کے بعد میرا بےوفا محبوب بھی مجھے واپس مل جائے گا۔ میں نے کہا نہیں، کیونکہ تمہاری قسمت ہی خراب ہے۔
میں نے اپنے اس بدنصیب دوست کو بتایا کہ شیطان نے اس کے علاوہ بھی تم سے بہت کام لینے ہیں، تم نے بےاولادوں کو اولاد بھی دینا ہے۔ چونک کر بولا ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا وہی اپنے فراڈ تعویز گنڈوں سے، تم اپنے پاس آنے والی ایسی خاتون کو ایک کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر دو گے اور کہو گے کہ اسے کسی ایسی جگہ رکھے جہاں اس پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ بےروزگار دوست نے پوچھا، مثلاً کون سی جگہ پر۔ میں نے کہا ’’بےوقوف، گھر میں ایسے کئی کونے کھدرے ہوتے ہیں، جن کی طرف کسی کی نگاہ نہیں جاتی، بس اسے کہنا وہ یہ تعویز کسی محفوظ ترین جگہ پر چھپا دے۔ میں نے اپنے اس دوست کو ایک بےپناہ قیمتی مشورہ بھی دیا اور وہ یہ کہ بہت سے لوگوں پر اب ان ڈبہ پیروں کی اصلیت ظاہر ہو چکی ہے، چنانچہ وہ ان کی طرف رخ نہیں کرتے، چنانچہ تم سائیڈ کاروبار کے طور پر حکیم حاذق بھی بن جائو۔ میں تمہیں حکیمی نسخوں کی ایک کتاب دوں گا۔ بس اس میں سے ایک بھی شفا پا گیا تو سمجھو ایک ہزار مزید مریض پکے۔ اس وقت ایک اور نادر خیال بھی میرے ذہن میں آیا، میں نے کہا بہت سے لوگ خارش کے مریض ہوتے ہیں اور وہ ٹُونے ٹوٹکوں سے اپنا علاج کرتے رہتے ہیں۔ خصوصاً وہ لوگ تو بہت پریشان ہوتے ہیں جنہیں خارش وہاں ہوتی ہے جہاں ان کا ہاتھ نہیں پہنچتا، انہیں بہت بےچینی ہوتی ہے، اس کے علاوہ ہمارے ہاں ایک مردانہ خواہش بھی ہے جو ہمارے ہاں بہت عام ہے، ہمارے عوام کی اکثریت اس میں مبتلا ہے۔ اس کے علاوہ علاج کا نسخہ بھی اس کتاب میں موجود ہے جو میں تمہیں دوں گا۔