گھریلو مزدوروں کی آواز، یعنی وہ افراد جو گھروں میں رہ کر روزی روٹی کماتے ہیں، ہمارے معاشرے میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر ان کی محنت اور قربانیاں عموماً نظر انداز کی جاتی ہیں۔ یہ افراد، جن میں بڑی تعداد میں خواتین شامل ہیں، ملک کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، مگر افسوس کی بات ہے کہ انہیں سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان کے حقوق کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وہ عموماً کپڑے سینے، دستکاری، کڑھائی، سلائی، قالین بافی، اور دیگر ہاتھ سے بنائی جانے والی اشیاء تیار کرتے ہیں، جو نہ صرف ملک کی برآمدات کو فروغ دیتی ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں ہنر کی عکاسی کرتی ہیں۔
گھریلو مزدوروں کے کام کو اکثر ایک اہم صنعت تسلیم کیا جاتا ہے، مگر ان کی اجرت اور دیگر مراعات نہایت محدود ہیں۔ انہیں نہ تو سوشل سیکورٹی کی سہولتیں حاصل ہیں، نہ ہی ان کے لیے کوئی صحت اور تعلیم کا انتظام موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر یہ مزدور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے حالات بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں گھریلو مزدوروں کی حالت زار اس لیے بھی سنگین ہے کہ یہ لوگ عموماً غیر منظم ہوتے ہیں اور ان کے پاس کوئی ایسی تنظیم یا فورم موجود نہیں ہوتا جہاں وہ اپنے مسائل پیش کر سکیں۔ گھریلو مزدوروں کی نہ تو کوئی یونینز ہوتی ہیں اور نہ ہی انہیں کسی طرح کا قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس وجہ سے ان کا استحصال بہت آسان ہو جاتا ہے اور ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اکثر ان کو کام کے عوض واجبی سی اجرت دی جاتی ہے، جو ان کے بنیادی اخراجات پورے کرنے کے لئے ناکافی ہوتی ہے۔
گھریلو مزدوروں کو قانونی دائرے میں لانا نہایت ضروری ہے تاکہ انہیں بنیادی حقوق اور مراعات دی جا سکیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم ان کی رجسٹریشن ہے تاکہ ان کی تعداد اور ان کے کام کے نوعیت کے بارے میں واضح اعداد و شمار دستیاب ہوں۔ حکومت سندھ نے حالیہ سالوں میں گھریلو مزدوروں کے لئے 'بے نظیر مزدور کارڈ کے اجرا کا عندیہ دیا ہے، جس کا مقصد ان مزدوروں کو صحت، تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ بے نظیر مزدور کارڈ کا یہ منصوبہ گھریلو مزدوروں کے لئے ایک امید کی کرن ہے، لیکن اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے اس پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
مزید برآں، گھریلو مزدوروں کو ان کی محنت کا جائز معاوضہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ آج کی معیشت میں، جب کہ بڑے پیمانے پر اشیاء کی پیداوار کی جاتی ہے، گھریلو مزدوروں کی محنت سے بنی چیزوں کی مانگ میں کمی نہیں آئی۔ ان کے ہاتھ سے بنائی جانے والی اشیاء، چاہے وہ کپڑے ہوں، قالین ہوں، یا دستکاری کی دیگر مصنوعات، ان میں ایک خاص کشش اور ثقافتی عنصر پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ اشیاء بازار میں اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مزدوروں کے ہنر کو بین الاقوامی منڈیوں میں پیش کیا جائے اور انہیں مناسب معاوضہ فراہم کیا جائے۔
گھریلو مزدوروں کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ان کی اجرت کا تعین ہے۔ چونکہ ان کا کوئی منظم پلیٹ فارم یا نمائندہ تنظیم نہیں ہوتی، اس لئے انہیں کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، اکثر ٹھیکیدار اور مڈل مین بھی ان کی محنت کا استحصال کرتے ہیں اور ان کی کمائی کا بڑا حصہ خود رکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور سماجی تنظیمیں گھریلو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے مداخلت کریں اور ان کی اجرت کو یقینی بنائیں۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف گھریلو مزدوروں کی رجسٹریشن کو یقینی بنائے بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی بھی کرے۔ اسکے علاوہ، گھریلو مزدوروں کی تنظیمیں اور یونینز بھی ان کے مسائل کے حل کے لئے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان تنظیموں کے ذریعے گھریلو مزدور اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھا سکتے ہیں اور اپنے مسائل کو حکومتی اداروں تک پہنچا سکتے ہیں۔
پاکستان کے مختلف صوبوں میں گھریلو مزدوروں کے لئے قانون سازی کا عمل جاری ہے، مگر اس سلسلے میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ گھریلو مزدوروں کی تنظیموں اور سماجی تنظیموں کو مل کر حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ ان مزدوروں کے حقوق کے لئے موثر قانون سازی کرے اور ان کے لئے فنی تربیت کے مواقع فراہم کرے تاکہ وہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنا سکیں۔