علامہ اقبال نے متحدہ ہندوستان کے بارے میں جس میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھا، ایک نظم لکھی تھی جسے آج بھی ہندوستان میں دوسرے قومی ترانے کا درجہ حاصل ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
غالباََ اس کی وجہ ہندوستان کی زرخیز ی، اس کے وسیع و عریض رقبے میں ہر طرح کے موسموں کے ساتھ ساتھ جنگلات، دریا اور پہاڑوں کے دلفریب مناظر اور ان میں چھپے ہوئے معدنی ذخائر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زمانے میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھااور اسی سونے کی چڑیا کو قابو کرنے کیلئے زمانہ قدیم سے ہندوستان بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہا ہے۔ لیکن آج سب کچھ بدل چکا ہے۔ موجودہ ہندوستان نے اپنے مضبوط سیاسی اور معاشی نظام کیوجہ سے اپنی اہمیّت کو کافی حد تک بحال رکھا ہے لیکن اس کا وہ حصہ جو آج کل پاکستان کہلاتا ہے، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے کچھ ایسی کشمکش میں مبتلا نظر آتا ہے کہ وہاں علامہ اقبال کا یہ ملّی ترانہ گنگنانا اپنے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستانی پنجاب جو پورے متحدہ ہندوستان کی غذائی ضروریات باآسانی پوری کرتاتھا۔ وہ اپنے مقامی لوگوں کیلئے بھی یہ فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہو جائے گا۔ جسے گندم اور چاول جیسی فصلوں کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے باسیوں کیلئے گندم اور دیگر اجناس کو درآمد کرنے کی نوبت آئے گی۔ جس زمین کی زرخیزی کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔ اس زمین سے رزق لینے کی بجائے وہاں نت نئی ہائوسنگ سوسائٹیاں تعمیر کی جائیں گی۔ جس میں’’ حشرات الارض ‘‘کی طرح بڑھتی ہوئی آبادی ٹھونسی جائیگی لیکن پھر بھی ان کی رہائش کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری کا یہ عالم ہوگا کہ وہ خطّے کا پسماندہ ترین ملک بن جائیگا۔ جہاں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی جان جوکھوں کا کام ہوگا۔ سیاسی حبس ، معاشی گھٹن کے ساتھ ساتھ پہلے صاف پانی اوراب صاف ہوا بھی نا پید ہوگئی ہے۔ اور ہم اجتماعی خود کشی کی جانب رواں دواں ہیں۔ آج کل ہمارے صوبائی دارالحکومت لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کا سب سے آلودہ اور گندا شہر ہے ہمارے پاس اس طرح کے اور بھی کئی عالمی اعزاز ہیں۔ مثلاََ ہماری عدلیہ، عدل و انصاف کے معاملے میں دنیا کی چند نچلے درجے کی عدلیہ میں شمار ہوتی ہے، سیکورٹی اور امن و امان کے حوالے سے پاکستانی شہر دنیا کے چند شورش زدہ شہروں میں گنے جاتے ہیں، فراڈ اور کرپشن میں ہمارا ثانی نہیں،صرف پاکستا ن میں ہی نہیں پوری دنیا میں ہمارے لوگ جہاں جہاں بستے ہیںوہاں انکی عمومی شہرت اچھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلیج کے اسلامی ممالک میں بھی پاکستان کی نسبت انڈیا اور بنگلہ دیش سے لیبر اور دیگر ہنر مند افراد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حج جیسی مقدس عبادت کے موقع پر بھی حاجیوں کے روپ میں بھیک مانگنے والے بہروپئے پہنچ جاتے ہیں جو پوری قوم کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا موجب بنتے ہیں۔ بیرونِ ملک سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ وہاں کے مقامی ایئر پورٹ پر گرین پاسپورٹ کے حامل افراد کو کس طرح تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو خوفناک تنزلی کا شکار نہ ہو ا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ قدرت بھی ہم سے منہ موڑ چکی ہے۔ پاکستان اُن دس ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ موسمی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔ بیرونِ ملک ہماری پہچان مہذب اور تعلیم یافتہ قوم کی نہیں ہے۔ اگر گہرائی میں جائیں تو اسکی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے وہ ہے سیاسی عدم استحکام ۔ جس ملک میں کوئی سیاسی نظام نہیں ہوتا اور ہر روز نت نئے تجربات کیےجاتے ہیں۔ اور چند افراد اپنی خاطر ملکی آئین اور قانون کو پامال کرتے رہتے ہیں۔ وہ ملک اس بدقسمت زمین کی مانند ہوتا ہے جو ہر وقت زلزّلوں کی زد میں رہتی ہے اور زلزلوں کی زد میں رہنے والی زمین پر فصلیں نہیں اُگتیں ۔ کاش ہم تباہی سے پہلے اپنی تباہ کن روش چھوڑ دیں۔