اسموگ نے پورے پنجاب کے خوبصورت شہروں پہ کالک مل دی ہے۔ماحولیات کی یہ دکھ بھری داستان کسے سنائیں کہ قصور ہمارا اپنا ہے، پتہ نہیں یہ حالات کیسے پیدا ہو گئے، وہ کون سا مرحلہ تھا، جب غلط فیصلے ہوئے، اسی لئے تو ایک سادہ دل شاعر پوچھتا ہے کہ
مرشد کسے بتائیں کہ دھوکہ کہاں ہوا
مرشد سوال کس سے کریں،
اس سوال کے جواب میں شہروں میں بیٹھے ہوئے بابو بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اسموگ کا بڑا سبب دھان کی فصل کے بعد کھیتوں میں آگ لگانا ہے مگر ایک حالیہ سرکاری رپورٹ نے سچی تصویر کا ایک ایسا رخ پیش کیا ہے، جسے عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا تھا، رپورٹ کے مطابق 83فیصد اسموگ دھواں چھوڑنے والی پرانی گاڑیوں کے سبب ہے، ہمیں اسموگ کا تدارک کرنا چاہیے، اس سلسلے میں فوری طور پر دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگا دینی چاہیے، تمام تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی آمد و رفت کے لئے ذاتی گاڑیوں کی بجائے بسوں کا استعمال یقینی بنایا جائے، فیکٹریوں کو شہروں سے نکال کر کہیں دور منتقل کر دیا جائے اور جہاں منتقل کیا جائے، وہاں جنگل بھی اگایا جائے، بڑے شہروں کے اندر اور ان کے آس پاس بڑی تعداد میں مقامی درخت لگائے جائیں، غیر ملکی درختوں سے پرہیز کیا جائے۔ ایسے درخت لگائے جائیں جو گہرے بادلوں کو کھینچ لاتے ہوں۔
ایک طرف اسموگ کا راج ہے تو دوسری طرف انسانی حقوق کی پامالی بھی عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ چند روز قبل قومی اسمبلی، سینیٹ اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈروں کو توہین آمیز رویے کے ساتھ گرفتار کیا گیا، انسانی حقوق کی کمیٹی کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کے انسانی حقوق پر بھی مٹی ڈال دی، یوں عمر ایوب، شبلی فراز، ملک احمد خان بھچر، اسد قیصر اور صاحبزادہ حامد رضا کو گرفتار کر کے جمہوریت اور پارلیمان کی توہین کی گئی۔ اب بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 24 نومبر کی فائنل کال دے دی ہے، ممکن ہے کہ 24نومبر سے پہلے ہی کوئی بڑا کام ہو جائے کیونکہ عمران خان کی ضمانت کا کیس لگا ہوا ہے، کسی وقت بھی ایسا فیصلہ آ سکتا ہے جو سیاسی منظر کو تبدیل کر کے رکھ دے گا۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ 8فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں قائم کی جانے والی حکومت سیاسی استحکام لانے میں مکمل طور پر نا کام ہو چکی ہے، اس کی یقینی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کا مینڈیٹ چرایا گیا، پاکستانی لوگوں نے جن امیدواروں کو منتخب کیا، ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا، ہارے ہوئے لوگوں کو فارم 47دے کر تخت پر تو بٹھا دیا گیا لیکن عوامی تائید کا خواب ادھورا رہا۔ حالیہ دور میں ہونے والی پکڑ دھکڑ اور انسانی حقوق کی پامالی سیاسی افراتفری کا باعث ہے، حکمرانوں کی پالیسیوں نے سیاسی استحکام کی منزل کو بہت دور کر دیا ہے، اسی لئے وطن عزیز کے اندر حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں، ایک طرف مہنگائی میں اضافہ تو دوسری طرف معاشی ناہمواریوں نے زندگی کی آنکھوں سے امید کے چراغ بجھانے شروع کر دیئے ہیں، یہ امید کے چراغ پھر سے روشن ہو سکتے ہیں اگر عوامی راج قائم ہونے دیا جائے۔ مقبول ترین سیاسی قیادت کو ملکی مسائل حل کرنے دیئےجائیں کیونکہ مسائل کا حل اس قیادت کے پاس ہے، جس کے پیچھے قوم کی اکثریت کھڑی ہو، اس سلسلے میں جس قدر جلدی ہو، اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے غیر ملکی قرضوں کی ری شیڈولنگ بھی مشکل ہو گئی ہے، سرمایہ کاری کے نام پر بہت وقت ضائع ہو چکا ہے، اس دوران بڑے بڑے دعوے سننے کو ملتے ہیں مگر عملی تصویر یہ ہے کہ اپنا سرمایہ کار بھی بھاگ رہا ہے، وطن ایمان کا حصہ ہے، ہمارا وطن دکھی ہے، اسے دیکھ کے دکھوں کو نیند نہیں آتی، بے خوابی کے بستر پر منیر نیازی کا شعر یاد آتا ہے کہ
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھ