آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر ملنے اور حالاتِ حاضرہ پر بات کرنیکا دن ۔
ریاست کی ذمہ داری اپنی حدود میں پیدا ہونے والے، بسنے والے ہر انسان کے تحفظ، تعلیم، خوراک اور روزگار کی فراہمی ہے۔ نہ کہ اس سے روزگار چھیننے کی۔ خاص طور پر پاکستان جیسی ریاستوں میں بے روزگاری صرف ایک فرد کی نہیں ہوتی ہے۔ پورے خاندان کی ہوتی ہے۔ جو کم از کم سات سے دس افراد پر مشتمل تو ہوتا ہے ۔ جو زیادہ تر کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ بجلی کے ہوش ربا بل ،گیس کی ماہانہ قیمت ادا کرتا ہے۔ پانی خرید کر نہاتا ہے، پیتا ہے۔ جب اس کے اہل خانہ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ اب ان کا کفیل رائٹ سائزنگ کی زد میں آگیا ہے تو ان پر ایک نہیں کئی قیامتیں گزرتی ہیں۔ دنیا اندھیر ہونے لگتی ہے، بیٹیوں کی منگنی ٹوٹ جاتی ہے، راشن والی دکانیں ادھار بند کردیتی ہیں، اسکولوں سے بچے اٹھانا پڑ جاتے ہیں، وہ اچانک لاوارث ہوجاتے ہیں، ریاست ان کیلئے ماں جیسی تو کیا سوتیلی ماں جیسی بھی نہیں رہتی ہے۔
رائٹ سائزنگ کا فخریہ اعلان کرنے والے وزیر اعظم، انکے رفقا، انکی پارٹی کے سپریمو، انکے ہم نوا اخبار نویس، اینکر پرسن کیا کبھی اس پر غور کرتے ہیں۔ رائٹ سائزنگ کی زد میں آنے والے ماں، باپ، بہنیں، بھائی، بھانجے، بھتیجے بے ریاست ہو جاتے ہیں۔ ریاست اور اسکے ادارے اس خاندان کیلئے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے مگر وہاں بے روزگاری الائونس ہیں، پرائیویٹ ادارے ہیں، کارخانے ہیں، ایک نوکری سے دوسری نوکری ملنے تک بے روزگاری کے وظیفے کام آتے ہیں۔ یہ اللّٰہ کا فضل ہے کہ پاکستان میں ایسے فلاحی ادارے ہیں۔ جو ہزاروں افراد کے دو یا تین وقت کے مفت کھانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ مختلف بیماریوں کا بلا معاوضہ علاج کر رہے ہیں لیکن یہ مسائل کا مستقل حل تو نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں عطیات دینے والے دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں ہیں لیکن یہ ترقی کی علامت تو نہیں ہے۔ ایک ملک کو خود کفیل بنانے کی پالیسی تو نہیں ہے۔ اپنی آتی نسلوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی جہت تو نہیں ہے۔
77 سال کی مسلسل کوششوں، فوجی اور سیاسی حکومتوں کی باریوں، یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی بڑی تعداد میں کرنے کے بعد بھی اگر روزگار کی یہی بھیانک صورتحال ہے تو کیا ہمارے دانشور، ماہرین معیشت، تعلیمی منصوبہ سازوں، تحقیقی اداروں کو سر جوڑ کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ کیا اس ساری بد حالی کی ذمہ داری سیاستدانوں اور فوجی حکمرانوں پر ڈال کر اطمینان سے اپنے معمولات میں مصروف رہنا چاہئے۔ قوم میں ایک جمود آگیا ہے، خود غرضی پیدا ہو گئی ہے، صرف اپنے خاندان کی فکر ہے، چند سو خاندان ایسے ہیں جنہیں ہر قسم کی آسودگی ہے، دنیا بھر میں فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہیں، مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر عبدالباری، ڈاکٹر امجد ثاقب، شوکت خانم کینسر اسپتال، الخدمت، غزالی ٹرسٹ، ریڈ فائونڈیشن، دی سٹیزن فائونڈیشن، عالمگیر ٹرسٹ، سیلانی، پاکستان آئی بینک سوسائٹی، ایدھی، چھیپا اور ہر شہر میں ایسی خدمات انجام دیتی تنظیموں کی قدر و وقعت بڑھ جاتی ہے۔ بیروزگار، غربت کے مارے سمجھتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو ان کا غم گسار ہے۔ صرف ناصح نہیں ہے۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
یہ محترم ہستیاں، معزز پاکستانی چارہ سازی کر رہے ہیں۔ جو در اصل ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، میڈیا پر مشتمل ہوتی ہے۔ پاکستان میں انتظامیہ کی ایک شاخ زیادہ طاقت ور بن گئی ہے۔ یہاں ریاست کا اسے پانچواں اور سب سے مضبوط ستون کہا جا سکتا ہے۔
رفاہی تنظیمیں بڑی حد تک اپنا یہ اخلاقی فرض اپنے طور پرادا کررہی ہیں۔ یہ کسی طرح بھی ان کی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔ اپنی تمام تر منصوبہ بندی کے باوجود یہ ریاست کا متبادل نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ وہ نہ تو ہر شہری کی خوراک کی ذمہ دار ہیں نہ ہی ہر بیمار کا مفت علاج ان کا فریضہ ہے۔ یہ تو ریاست کے ہر متعلقہ شعبے کا فرض ہے۔ متعلقہ وفاقی صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کا قانونی فرض ہے۔ اس کیلئے بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ متعلقہ اعلیٰ افسروں کو روزانہ مانیٹر کرنا چاہئے۔ اس علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے، میئر، چیئرمین یونین کونسل، کونسلرز کا فرض ہے کہ وہ اپنے علاقے کے ہر شہری کی تعلیم، خوراک، تحفظ اور روزگار کا جائزہ لے۔ ریاستی ادارے یہ کر رہے ہوں تو باشندے کا اپنی ریاست پر اعتماد بڑھتا ہے۔ہماری اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب، ایس آئی یو ٹی کے ڈاکٹر ادیب رضوی، انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری، الخدمت کے عبدالشکور، پاکستان آئی بینک سوسائٹی کے قاضی ساجد علی ، فیصل ایدھی، رمضان چھیپا سے نیاز مندی رہتی ہے۔ ان سب کی پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے پُر امیدی بہت حوصلہ بڑھاتی ہے۔ یہ چارہ ساز ہیں، غمگسار ہیں، صرف نصیحت نہیں کرتے، ریاست اور اداروں پر ہماری طرح تنقید نہیں عمل کرتے ہیں۔ غریب عوام کی خدمت کرتے ہیں، ریاست کا ہاتھ بٹاتے ہیں، اپنے ہم وطنوں کا ہاتھ پکڑتے ہیں۔
پاکستان آئی بینک سوسائٹی کتنی دہائیوں سے بصارت کی بحالی کے لیے جدو جہد کر رہی ہے، کبھی سری لنکا سے آنکھیں آتی تھیں، اب امریکہ سے بھی آرہی ہیں، موتیا کے مفت آپریشن ہو رہے ہیں، اب ڈائیلاسس بھی فری شروع کر دیا ہے، گٹکے کے کینسر کا علاج بھی۔ علمائے کرام سے جسم کے اعضا کے عطیات کیلئے فتوے بھی حاصل کیے، پاکستان سے بھی آنکھوں کے عطیات کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مختلف اداروں میں مفت طبی مشوروں، علاج کیلئے کیمپ قائم کیے جاتے ہیں۔ ایک رجحان ساز روایت نے مجھے ایک سماجی تبدیلی کی بشارت بھی دی کہ قاضی ساجد علی کے جو جاگیردار دوست ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے علاقے میں غریبوں کی بینائی کے علاج کیلئے کیمپ لگوائے، اخراجات برداشت کیے، ایک وڈیرا جب اپنے ہاریوں کی بصارت کیلئے سرپرستی پر آمادہ ہو جائے تو یہ نوید ملتی ہے کہ اب جاگیرداروں میں اپنے ہم وطنوں کیلئے بصیرت پیدا ہو رہی ہے۔ بصارت اور بصیرت کایہ امتزاج ہی کسی قوم کو آگے لے جا سکتا ہے۔ میں تو اپنی پھر یہ درخواست دہرائوں گا کہ اخوت، الخدمت، سیلانی، عالمگیر، دی ریڈز فائونڈیشن، ایدھی، چھیپا، شوکت خانم کینسر اسپتال، پاکستان آئی بینک سوسائٹی، دی سٹیزن فائونڈیشن کے سربراہ سب ایک روشن بصیرت کے حامل ہیں۔ یہ اپنا کنسورشیم بنا کر ہر سال ایک کانفرنس کریں۔ ان کے تجربات اور خدمات ملک کو مزید رفاہ عطا کرسکتے ہیں۔ ریاست کو اپنی ذمہ داری سے بری ہونے کی بجائے ان کو اپنے فرائض کا احساس دلا سکتے ہیں۔ پاکستان ایک خود مختار۔ فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔