”جناب آپ کے کالم ’آرٹ پر ایک مکالمہ‘ پر میرا خیال اور سطریں آپ کی نظرہیں: موضوع بہت جاندار ہے اور پُرانا بھی اور یہ بحث لاحاصل بھی نہیں ہے۔ سچی بات ہے کہ اس پر آپ نے نہ صرف لکھا بہت اچھا ہے بلکہ بہت سارے سوالوں کے جواب بھی خود ہی دے دیئے ہیں۔ مسئلہ وہی ہےکہ آرٹسٹ اور ایکٹیوسٹ /محرک /کارکن میں فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک عظیم آرٹ اور مزاحمت کا تعلق ہے تو میں بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ تاج محل، ویٹی کن چرچ میں مائیکل اینجلو کی پینٹنگز، وزیر خان مسجد اور مغل محلات میں ٹائل سے بنے Mosaic ، میر تقی میر کی شاعری، مصر میں بنے اہرام، یونانی اور رومن زمانے کے بنے تھیٹر، اسٹیڈیم اور مجسمے، اور یورپین موسیقاروں وولف گانگ موزارٹ اور جوہان سیباتیان باخ کی بنائی ہوئی دھنیں اور بڑے غلام علی خان کی سُریں، یہ تمام آرٹ کسی حکمران یا نظام سے مزاحمت کا نتیجہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی آرٹ اور تخلیق کا بہت بڑا شاہکار ہیں۔ اب دوسری طرف ایکٹیوزم کو دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی لکھاری، کالم نگار یا کسی سیاسی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی، ادبی یا علمی تحریک کا لیڈر، داعی اور پرچارک ہے تو اس کو اپنی کاوش میں عملی جدو جہد کو شامل کرنا پڑے گا ورنہ اس کے تمام دعوے، تبلیغ اور پرچار سب کھوکھلے، بے اثر اور بے معنی ہو جائیں گے اور تاریخ اس کو منافقت کے بہت قریب دیکھے گی اور لکھے گی۔ البتہ ایسا بھی ہوتا ہے بہت سارے ایکٹیوسٹ اپنے آرٹ، تحریر اور تبلیغ کو اپنی جدو جہد کیلئے میڈیم اور ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس میں بظاہر کوئی برائی نہیں، پھر تاریخ خود اس کا پوسٹ مارٹم کرتی ہے اور دیکھتی ہے کہ وہ بطور آرٹسٹ یا ایکٹیوسٹ کے طور پر مانا جائے گا یا وہ ہر دو کے طورپر زندہ رہے گا۔ اس طرح کے ایکٹیوزم کی دو عظیم انسانی مثالیں جناب سقراط اور کارل مارکس ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اپنی تبلیغ اور نظریات کے مطابق اس طرح ڈھال لیا کہ ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔ آپ کا پڑھنے والا۔ شاہد ریاض گوندل۔‘‘
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، میں نے گزشتہ کئی برسوں میں دوسری مرتبہ کسی مہربان کا خط یا رائے اپنے کالم میں شائع کی ہے اور یوں میں اپنے ہی وضع کردہ حلف کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہوں، یوں میرا اور پرویز مشرف کا مقام و مرتبہ اب برابر ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی نوکری بچانے کیلئے آئین شکنی کی تھی جبکہ اِس خاکسار نے یہ کام ایک گوندل کے تبصرے سے متاثر ہو کر کیا ہے۔ اکثر اوقات قارئین ایسے شاندار تبصرے کرتے ہیں کہ لکھاری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ لکھتے ہوئے یہ بات اُس کے ذہن میں کیوں نہ آئی۔ جو بات اِس تبصرے میں بیان کی گئی ہے اُس سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ ایک طرح سے یہ میرے خیالات کی تائید ہی ہے، تاہم اندازِ بیاں خوب ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر آرٹسٹ، تخلیق کار یا ادیب خالصتاً اپنے فن کی بنیاد پر ہی جانا جاتا ہے، اہرام مصر کے آرکیٹکٹ سے بڑا تخلیق کار بھلا کون ہو سکتا ہے، آج بھی ہم اُس کی تخلیق دیکھ کر انگشت بدانداں رہ جاتے ہیں، لیکن اُسی آرٹسٹ نے یہ اہرام بادشاہ وقت کی فرمائش پر بنائے ہوں گے، اور مصر کا وہ فرعون بہرحال کوئی جمہوری انداز میں منتخب ہو کر تو تخت پر نہیں بیٹھا ہوگا تو کیا اب ہم اِس بنیاد پر اہرام مصر کو فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ نہ سمجھیں؟ ظاہر ہے کہ یہ احمقانہ بات ہو گی۔ اسی طرح بڑے غلام علی خان کی گائیکی ہویا میر کی شاعری، یہ بھی فنونِ لطیفہ کی معراج ہی قرار پائیں گی، یہ موسیقی یا شاعری سنتے وقت کوئی یہ نہیں سوچے گا کہ اِن اصحاب نے اپنے وقت میں غلامی یا ایسی ہی کسی اور قبیح رسم کے خلاف جدوجہد کی یا نہیں۔ البتہ یہاں ایک ٹوئسٹ ہے۔ ایک منٹ کیلئے فرض کریں کہ جرمن زبان کا کوئی بہت اعلیٰ پائے کا شاعر ہے جو برلن یونیورسٹی میں ادب کا استاد بھی ہے، وہ روزانہ صبح بس میں سوار ہو کر یونیورسٹی جاتا ہے، طلبہ کو پڑھاتا ہے، کچھ وقت لائبریری میں گزارتا ہے، شام کو واپس آتا ہے، وائن پیتا ہے، کتابیں پڑھتا ہے، ایک آدھ نظم لکھتا ہے اور سو جاتا ہے، ہمیں اُس کی زندگی سے کوئی مسئلہ نہیں، اُس کے ادبی مقام کا تعین ہو جائے گا۔ لیکن اسی شاعر سے جب سوال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کی غزہ پر ہونے والی بمباری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اسے اُس کا حق حاصل ہے اور وہ غزہ میں مرنے والے بچوں کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہتا بلکہ اُلٹا اسرائیل کی حمایت کرتا ہے تو اُس صورت میں اسے محض اچھی شاعری کے رعایتی نمبر دے کر پاس نہیں کیا جا سکتا، لا محالہ اسے تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرکے تنقید کی جائے گی۔
اِس بحث میں ایک اور ٹوئسٹ بھی ہے۔ جس شخص کا جتنا بڑا دعویٰ ہوتا ہے اُس پر ذمہ داری بھی اتنی ہی بھاری عائد ہوتی ہے۔ اسرائیل کا لکھاری یوحال نوحا حراری اِس کی ایک مثال ہے۔ میری رائے میں یہ عہد حاضر کا سب سے بڑا دانشور ہے، اِس کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں، حتّیٰ کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کتاب پڑھنے کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے اِس لکھاری کی نئی کتاب Nexus آئی اور چند دنوں میں ہی اِس کی تمام کاپیاں بِک گئیں۔ لیکن اِس دانشور نے بھی غزہ کے معاملے پر وہ دو ٹوک موقف نہیں لیا جس کی اِس سے امید تھی، یا جس طرح کا دلیرانہ موقف ارون دھتی رائے نے اپنایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فنکار، آرٹسٹ یا ادیب ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائے یا اُس کا موقف اُس کی تحریروں اور فن پاروں سے تال میل نہ کھائے تو کیا ہم اُس کے فن کی داد دینا ہی چھوڑ دیں؟ سچ پوچھیں تو اِس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں۔ حراری کی نئی کتاب میں نے چند روز پہلے خریدی ہے اور اب اسے پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اسی طرح اسپین کے مشہور آرٹسٹ سلواڈر ڈالی کی مصوری اور آرٹ ایسا اچھوتا ہے کہ بندہ داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا مگر یہی ڈالی تھا جس نے خط لکھ کر اپنی رائے کا اظہار کیا کہ غیر سفید فام نسل کے لوگوں کو قید کر دینا چاہیے۔ سو، یہ ممکن نہیں کہ فن کا دلدادہ کوئی شخص اچھی شاعری، مصوری، مجسمہ سازی یا آرٹ کی تحسین نہ کرے، البتہ داد دینے کے ساتھ ہی یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وہ آرٹسٹ کہیں ظلم کی حمایت کا مرتکب تو نہیں ہوا، یہ کم از کم پیمانہ ہے جس پر اسے پرکھا جانا چاہیے۔ ختم شد۔