رابطہ … مریم فیصل جب آسمان پھٹ کر سروں پر گرے گا شاید اسی وقت ظالموں کو عقل آئے گی ۔ اپنے ہم وطنوں کے بارے میں تنقید کرنا یقینا بہت مشکل ہے لیکن اگر ہم ان ہی ان کے سیاہ کارناموں پر صفحے کالے نہ کریں تو پھر کون کرے گا ۔ یہاں برطانیہ میں چھ سالہ معصوم سارہ شریف جو اپنے ہی سگے باپ اور سوتیلی ماں کے ظلم سہتے اس دنیا سے رخصت ہوگئی اور وہاں پاکستان میں زہرہ قدیر اپنی ہی سگی خالہ کے حسد کا شکار ہوگئی ۔یہ سب کیا ہے اور ملوث کون ہے، یہاں بھی پاکستانی اور وہاں بھی پاکستانی،افسوس صد افسوس لیکن صرف افسوس کرنا کیایہ کافی ہے،ویسے اس طرح کے واقعات تو پاکستانیوں سے بھرے پڑے ہیں ، پہلے صرف میڈیا اور اب تو سوشل میڈیا بھی ایسے واقعات کی خبریں انا فانا میں دنیا بھر میں پھیلا دیتا ہے لیکن پھر بھی یہ واقعات رک نہیں رہے ہیں اور کبھی رکیں گے بھی نہیں کیونکہ مادیت پرست ذہنوں میں رشتے ناتے تعلقات انسانیت نہیں صرف خود غرضی جلن حسد جاہلیت کے کیڑے ہی پلتے ہیں جو ان ذہنوں سے وہ کچھ کراتے ہیں جیسا سارہ کے ساتھ ہوا اور جو کچھ زہرہ کے ساتھ ہوا ۔رشتے تعلقات میں جلن اور حسد فطری جذبات ہین لیکن جب ان میں پیسوں کی لالچ بھی شامل ہوجائے تب کچھ بھی برا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے ۔ سارہ کے کیس میں سوتیلی ماہ کا ظالمانہ کردار اور باپ کی مالی حالت اور زہرہ کے کیس میں سگی خالہ کا بیٹے اور اس کے پیسوں کو بہو سے باٹنا ان دونوں کیسوں کے تانے بانے جوڑے جائے تو ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے جلن اور لالچ ۔دونوں ہی کیسز میں نہ سارہ کے حقیقی باپ نے گھر میں معصوم ظلم کا شکار ہوتی بیٹی کے لئے کوئی قدم اٹھا کر اس مسئلے کو حل کرنے کا سوچا کہ اگر ظلم سوتیلی ماں کر رہی تھی تو اسے سمجھا یاجاتا یا پھر سخت تنبیہ کی جاتی لیکن نہیں ایسا نہیں کیا گیا اور زہرہ کے کیس میں بھی زہرہ خود بھی سہتی رہی اور والد اور شوہر نے بھی سسرالیوں کے رویئے سے سختی سے نمٹنے کے بجا ئے روائیتی سسرالیوں والا انداز سمجھ کر ہلکے انداز میں ڈیل کیا کیونکہ دونوں ہی معاملات میں ظلم کرنے والے قریبی خونی سگے رشتے دار تھے اور یہ کہاوت تو پاکستانیوں میں مشہور ہے کہ اپنا مارے گا تو چھاوں میں ڈالے گا لیکن کسی نے اس کہاوت کو سمجھنے کی کوشیش بھی کی ہے کہ اپنا مارے گا ہی کیوں اور جب مارے گا تو وہ اپنا کیسے ہوا ۔ اپنے ہم وطنوں کے روئیے کو بدلنا ہمارے لئے ممکن نہیں لیکن جو بھی مائیں بہنیں بیٹیاں اپنے گھروں میں ظلم سہہ رہی ہیں ان کو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ظلم نہ سہو آواز اٹھاؤ چاہے وہ اپنا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ آج ایک ڈانٹ یا ہلکا سا تھپڑمارنے والا کل کتنا بڑا جرم کر سکتا ہے ان دونوں کیسز کو دیکھ کر اندازہ لگانا ناممکن نہیں ۔