ہائیڈپارک … وجاہت علی خان اگرچہ یہ مقابلہ مبنی بر انصاف معلوم نہیں ہوتا اور نہ ہی مہذب دنیا کے بنائے گئے کسی اصول پر پورا اترتا ہے لیکن کیونکہ یہ مقابلہ ایک جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے اور محاورے کے مطابق تو ’’جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے‘‘۔ دنیا میں اسلامی ملکوں کی تعداد50 سے زیادہ ہے ان کے مقابلہ میں یہودیوں کا صرف ایک ملک اسرائیل ہے اور اس کی فوجی قوت ریگولر اور ریزرو ملا کر دو لاکھ کے قریب بنتی ہے جبکہ 50میں سے صرف 13اسلامی ملکوں کی فوج کی افرادی قوت تقریباً 48لاکھ بنتی ہے ان میں سر فہرست پاکستان بھی شامل ہے جو ایک واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت بھی ہے، یہ اس سوال کا برملا جواب ہے لیکن اگر حقیت میں کوئی مسلم بلاک یا مسلم اُمہ کا کوئی وجود ہو اور ان کے اپنے اپنے مفادات اسرائیل سمیت دیگر مغربی ملکوں سے نہ ہوں، اب حقیقی معاملہ یہاں یہ ہے کہ اسرائیل کے دو لاکھ فوجیوں اور فی الوقت دُنیا کے جدید ترین ہتھیاروں، ٹاپ آف دی ٹاپ فضائی قوت اور ہوشربا ٹیکنالوجی کا مقابلہ حماس کے کوئی 20ہزار اور حزب اللہ کے کوئی 25ہزار فائٹرز کے ساتھ ہے جن کے پاس ہلکے روایتی اور زمینی ہتھیاروں کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ، برطانیہ اور بعض یورپی ملکوں کی کماحقہ حمایت بھی اسرائیل کے ساتھ ہے۔ چنانچہ یہ مقابلہ یا جنگ 48لاکھ ٹرینڈ فوجیوں کی2 لاکھ فوجیوں کے ساتھ نہیں بلکہ اسرائیل کی دو لاکھ ٹرینڈ آرمی کی چالیس ہزار فائٹرز (یہ وہ تعداد ہے جو گزشتہ سال جنگ شروع ہونے سے پہلے تھی) کے ساتھ ہے جن کے پاس کوئی جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ اس تصویر میں کچھ اور رنگ بھی ہیں جس میں تقریباً چالیس مسلمان ملکوں کا بین الاقوامی فوجی اتحاد بھی شامل ہے یعنی، ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ جس کی قیادت پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سپرد کی گئی اس کی تشکیل14 دسمبر 2015کو سعودی عرب کی قیادت میں ہوئی، اتحاد کے مطابق بظاہر اس کا مقصد یہ ہے کہ ’’مذہب اور نام سے قطع نظر ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت اور جنگ کا محاذ قائم کیا جائے“ ابتدائی طور پر اس فوجی اتحاد میں 35مسلمان ممالک شامل ہوئے جبکہ 10سے زائد دیگر مسلمان ممالک نے اپنے تعاون کا اعلان کیا، جن میں انڈونیشیا بھی شامل ہے جو دنیا کا سب سے بڑا مسلمان آبادی والا ملک ہے۔ آذربائیجان بھی اس اتحاد میں شامل ہونے پر غور کر رہا ہے۔ اس تنظیم کا صدر دفتر سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض ہے اور اس فوجی اتحاد کی تشکیل کا اعلان سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان السعود نے14دسمبر 2015کو کیا تھا۔ ابھی چند روز قبل ہی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں انہی اتحادی مسلمان ممالک کا اجلاس ہوا ہے جس میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی شرکت کی ہے یوں تو حالیہ اجلاس غزہ اور لبنان میں اسرائیلی حملوں کے معاملے پر ہوا لیکن اس اجلاس کی ایک خاص بات سعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ ترین فوجی اور سول حکام کے درمیان تعلقات پر تبادلۂ خیال تھی۔ سعودی فوج کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے حال ہی میں ایران کا دورہ کیا ہے جبکہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بات بھی کی ہے، ایرانی میڈیا کے مطابق سعودی وفد نے ایران کے فوجی حکام سے دونوں ممالک کے عسکری تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ ایرانی میڈیا اس دورے کو ’’غیر معمولی‘‘ قرار دے رہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان آخری بار براہ راست فوجی رابطے دسمبر 2023 میں ٹیلی فون کالز کے ذریعے ہوئے تھے۔ یہ بڑی خبر اس لئے بھی ہے کہ غزہ میں جنگ کے آغاز کو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا لیکن سعودی حکام کی جانب سے پہلی بار اتنا سخت بیان سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب کی زیر قیادت ریاض میں عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب میں محمد بن سلمان نے لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت بھی کی۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس کانفرنس کی بنیادی ترجیح فلسطین اور لبنان کے علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا، عام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا اور خطے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے عالمی برادری پر دباؤ ڈالنا تھا جو یقیناً ماضی میں ہونے والی اس قسم کی اسلامی کانفرنسز کی روایت سے ہٹ کر ہے اسلامی دُنیا کے لئے اس قسم کی ایران سعودی بات چیت خوش آئند تو ہے تاہم اسی دوران ایران کی خبر رساں ایجنسی ’’اسنا‘‘ کا یہ کہنا کہ ایران کی فوج روس اور عمان کے ساتھ شمالی بحر ہند میں مشترکہ فوجی مشقیں کر رہی ہے جس میں سعودی عرب سمیت چھ دیگر ممالک بھی شامل ہیں، دوسری طرف سعودی عرب کے اعلیٰ سطح کے فوجی وفد کا دورہ ایران ایسے وقت میں سامنے آیا جب اسرائیل کی جانب سے ایک نیا دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ علاقائی سلامتی کے لیے بحیرہ احمر میں امریکہ کی سربراہی میں ایک اتحاد بنایا جا رہا ہے جس میں اسرائیل، اُردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہوں گے۔ بحیرہ احمر میں فوجی تعاون کا مقصد بحری نقل و حمل، تیل، گیس اور سٹریٹجک اثاثوں کو ایرانی خطرے سے بچانا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ’’علاقائی دفاعی اتحاد‘‘ عراق اور یمن میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ اب عالمی سیاست اور مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے ہر شخص کے لئے اس چومکھی سیاست کو سمجھنا قدرے مشکل ہے کیونکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب ایک طرف تو ایران کے ساتھ محبت کی پینگیں چڑھائے وہ ایران جو عمان و روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرنے کی تیاری کر رہا ہو، دوسری طرف امریکہ کو بھی راضی رکھے اور اسرائیل کے دعوے کے مطابق علاقائی سلامتی کے لئے امریکہ کی سربراہی میں اُردن، مصر، اسرائیل اورسعودی عرب کا ایران کے خلاف ایک اتحاد بننے جا رہا ہو ادھر سعودی عرب اور ایران کی یمن میں پراکسیز کی ہو رہی جنگ بھی شد و مد کے ساتھ جاری ہو اور حالیہ اسلامی کانفرنس میں شامل ہونے والے دیگر اسلامی ملکوں کے سیاسی و معاشی مفادات و معاملات بھی کم و بیش اسی نوعیت کے ہوں تو ایسے کھچڑی زدہ ماحول میں غزہ یا لبنان کے بارے جاری کردہ دبے سہمے جملوں پر مشتمل اعلامیہ بھلا عالمی سیاسی شطرنج کا ایک پیادہ بھی ہلانے کے قابل ہو سکتا ہے کیا؟ چنانچہ ان جاری حالات میں چالیس مسلمان ملکوں کی اتحادی فوج ہو یا13اسلامی ممالک کی48 لاکھ فوج اگر یہ کچھ کہنے کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تو پھر اسلامی اُمہ اور اسلامی اتحادی افواج تو لفظوں کی حد سے آگے کچھ بھی نہیں بلکہ تُرش حقیقت تو یہی ہے کہ اصل رن پڑا ہے تو2لاکھ اسرائیلی فورسز اور45 ہزار حماس و حزب اللہ فائٹرز کے درمیان، باقی سب وَاللہُ اَعلَم۔