• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیٹیوں کیلئے رشتہ تلاش کرنا سب سے کٹھن مرحلہ ہوتاہے،تمام تر جانچ پڑتال کے باوجود تسلی نہیں ہوتی ۔اس طرح کے مواقع پر یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ اپنے پھر اپنے ہوتے ہیں ،کہا جاتا ہے کہ اپنا مارے سائے میں ڈالے ،غیر مارے دھوپ میں ڈالے ۔چنانچہ ہرممکن کوشش کی جاتی ہے کہ خالہ ،ممانی ،پھپھی یا پھر تائی کے گھر میں رشتہ ہو جائے ،بیٹی کی شادی غیروں میں نہ کرنا پڑے۔کوئی کم بخت یہ سوال نہیں اُٹھاتاکہ جب کوئی مار ہی ڈالے تو وہ اپنا ہو یا غیر ،چھائوں میںڈالے یا کڑی دھوپ میں پھینکے ،اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ویسے بھی شادی کے بعد رقابت کی دیمک رشتوں کو یوں کھوکھلا کردیتی ہے کہ خالہ ،پھپھی ،ممانی یا پھر تائی سگی نہیں رہتی ،ساس کا روپ دھار لیتی ہے ۔چونکہ ہمارے معاشرے میں مرد کولہو کا ایسا بیل ہے جسے خواتین کی کفالت کرنے کیلئے زندگی بھر مشقت کرنی ہے اس لئے بچپن سے ہی اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ تم نے اپنی بہنوں کا خیال رکھنا ہے ،اپنی ماں کی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں ۔بعض گھروں میں تو کمانے والے لڑکے کی شادی میں دانستہ طور پر تاخیر کی جاتی ہے کہ کہیںیہ بیل ہاتھ سے نہ نکل جائے لیکن بادل نخواستہ شادی کرنی بھی پڑ جائے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ بیوی تمہارے پائوں کی جوتی ہے ،اسے اُٹھا کر سر پر رکھنے کی غلطی نہ کرنا۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ داماد کیلئے اصول اور معیار مختلف ہوتے ہیں۔وہاں بیوی گھر کی مالکن ہوتی ہے اور داماد امور خانہ داری میں تعاون کرے تو اسے درد دل رکھنے اور بیوی کا احساس کرنے والا نیک شوہر قرار دیا جاتا ہے لیکن اگر اپنا بیٹا یہ روش اپنا لے تو اسے’’ رن مرید ‘‘ ہونےکا طعنہ دے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔گھر میں کنواری بیٹیاں ہوں تو ماں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں یہ اپنی ساری آمدن بیوی پر نہ لٹا دے ۔اس خوف کی کوکھ سے دلخراش واقعات جنم لیتے ہیں۔کہیں کچن میں گیس کا سلنڈر پھٹنے سے نوبیاہتا دلہن جھلس کر مر جاتی ہے تو کہیں گھر کی بہو سیڑھیوں سے گر کر سر پر چوٹ آنے سے فوت ہو جاتی ہے۔مگر چند روز قبل سیالکوٹ کے شہر ڈسکہ میں ایک ایسی واردات ہوئی جسے بیان کرتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔زہرہ نامی ایک لڑکی کی شادی چند برس قبل سگی خالہ کے بیٹے قدیر سے ہوئی جو حصول روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھا۔یقیناً یہ رشتہ اسی روایتی سوچ کے تحت کیا گیا ہوگا کہ خالہ ساس نہیں ماں کی طرح اپنی بہو کا خیال رکھے گی لیکن نوبیاہتا جوڑے کا پیار دیکھ کر حسد کی آگ بھڑک اُٹھی۔سب سے پہلے تو یہی بات ناگوار گزری کہ قدیر نے بیوی کو اپنے ساتھ بیرون ملک لے جانے کا فیصلہ کیا۔اہلخانہ کا اصرار تھا کہ زہرہ یہیں رہ کر ان کی خدمت کرے ،قدیر ملک سے باہر جاکر مال و دولت کمائے تاکہ سب عیش و عشرت کی زندگی بسر کرسکیں۔اس دوران دونوں کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی تو پیار مزید بڑھ گیا ۔قدیر کی والدہ کو یہ پیار ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ بہو نے اس کے بیٹے پر جادو کردیا ہے ۔وہ چونکہ چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ،اس لئے ماں کو مسلسل یہ خوف لاحق رہتا کہ لڑکا ہاتھ سے نکل گیا تو گھر کے اخراجات کون چلائے گا۔بہر حال اب ان کا بیٹا اڑھائی سال کا ہوچکا تھا اور دوسرے بچے کی پیدائش متوقع تھی ۔قدیر اپنی اہلیہ کو سیالکوٹ میکے چھوڑ کر واپس لوٹ گیا۔چند ہفتے گزر جانے کے بعد ساس اور نندوں نے بھابھی کو ڈسکہ آنے کی دعوت دی تو زہرہ اپنے کم سن بیٹے کو ساتھ لیکر سسرال چلی گئی ۔اس کے والد شبیر احمد جو پولیس میں اے ایس آئی ہیں ،ان کی بیٹی سے بلا ناغہ بات ہوتی تھی ۔مگر ایک دن یوں ہوا کہ مسلسل فون کرنے کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا تو وہ اس کی خبر لینے گھر چلے گئے۔اس دوران قدیر نے بھی اپنے سسر کو ٹیلیفون کرکے تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ زہرہ سے رابطہ نہیں ہوپارہا۔گھر پہنچنے پر زہرہ کے والد نے اپنی بیٹی کے بارے میں پوچھا تو اس کی نند نے بےپروائی سے کہا کہ ہمیں کیا معلوم کہاں ہے ۔زیور اور پیسہ لیکر بھاگ گئی ہوگی ،صبح ساڑھے سات بجے سے غائب ہے۔شبیر احمد کی چھٹی حس نے خبردار کیا کہ بہت برا ہوچکا ہے ۔کیونکہ گھر میں فرش کو دھو کر اچھی طرح چمکادیا گیا تھا ،زہرہ کا کم سن بیٹا گھر پر موجود تھا ،اگر وہ خود کہیں جاتی تو بیٹے کو ساتھ لیکر جاتی۔شبیر احمد نے پولیس ہیلپ لائن پر کال کردی اور اپنی بیٹی کے اغوا کا پرچہ درج کروادیا۔جب پولیس نے تفتیش کا آغاز کیا تو زہرہ کی ساس اور نندوں کو حراست میں لینے پر ساری کہانی کھل کر سامنے آگئی ۔سنگدل ساس جو زہرہ کی سگی خالہ تھی اس نے اعتراف کیا کہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ملکر بہو کو قتل کیا اورپھر اس کی لاش کے ٹکڑے کرکے نالے میں پھینک دیئے۔ملزمہ نے بتایا کہ رات گئے جب زہرہ کمبل اوڑھ کر سو رہی تھی تودیگر شریک ملزموں کی مدد سے پہلے منہ پر کمبل رکھ کر سانس روک کر اسے قتل کیا گیا اور پھر تیز دھار آلے سے لاش کے ٹکڑے کرکے بوریو ں اور پلاسٹک بیگ میں ڈال کر پانچ مختلف جگہوں پر پھینکا گیا۔اس سے پہلے مقتولہ کے سر کو دھڑ سے الگ کرکے جلایا گیا تاکہ لاش مل بھی جائے تو شناخت نہ ہوسکے ۔بتایا گیا کہ قدیر اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتا تھا ،اسے خرچہ دیتا تھا ،اور یہی بات اس کی ماں اور بہنوں سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ان کا خیال تھا کہ اب ایک اور بچہ ہوجانے کے بعدقدیر مکمل طور پر اپنی بیوی کے زیر اثر آجائے گا۔یہی سوچ کر انہوںنے زچہ اور بچہ دونوں کو ٹھکانے لگا دیا۔لہٰذا بچو ں کی شادیاں کرتے وقت اپنا اور غیر نہ دیکھیں بس یہ خیال رکھیں کہ انسانوں کے روپ میں حیوانوں سے واسطہ نہ پڑ جائے۔

تازہ ترین