مقامِ شرم ہے کہ ہم برسوں سے چین اور امریکہ کے درمیان سی پیک سی پیک کھیلتے رہے ،اس دوران طالبان عبوری انتظامیہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہوئے چین کے ساتھ زمینی راستے بذریعہ ریلوے وسیع تر تجارتی روابط بڑھانے میں کامیاب ہوگئی۔ اب چین سے 50 بوگیوں پر مشتمل ایک کارگو ٹرین تجارتی سامان لے کر افغانستان روانہ ہو چکی ہے جو20 روز میں افغانستان پہنچے گی۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ قومی ایئر لائن پی آئی اے کو کوڑیوں کے مول فروخت کرنے کی بولیاں لگا رہے ہیں مگر کوئی گاہک اسے خریدنے کو تیار نہیں۔ مقام عبرت ہے کہ ہم انصافیوں، احتجاجیوں، انتشاریوں، فسادیوں کے چکر میں انتشار، نااتفاقی کی بنیاد پر تقسیم ہوگئے اب دہشت گردی کو ہمارے خلاف خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ایسے میں بانی پی ٹی آئی اب بھی حالات کا ٹھیک سے تجزیہ اور ادراک نہیں رکھتے۔ قیدی نمبر804 آج پھر تنہائیوں کی کال کوٹھڑی میں ماضی کی طرح ایک بڑا خطرناک سیاسی بلنڈر کرنے جارہے ہیں،شائد وہ ماضی قریب کی تمام تر احتجاجی سیاست کی ناکامی کے بعد ٹرمپ کی کامیابی کو سیاسی ٹرمپ کارڈ سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں۔ تبدیل شدہ ملکی و بین الاقوامی حالات کا حقیقی تجزیہ خود احتسابی کے بعدٹھوس فیصلہ سازی، مقبول ترین سیاسی رہنما کا مشکل ترین امتحان ہے۔ بانی پی ٹی آئی ہاری بازی ٹرمپ کے سہارے جیتنے کی کوشش میں 24 نومبر کو اسلام آباد میں جو سیاسی ہنگامہ برپا کرنا چاہتے ہیں ممکنہ طور پر انہیں وہ کامیابی نہیں ملے گی۔ ”مارو یا مرجاؤ“ کی یہ پالیسی ان کی سیاسی کشتی کو ڈبو بھی سکتی ہے۔ وجوہات اس کی بہت سی ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ اڈیالہ جیل کے باہر کی دنیا مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ ریاست حکمرانوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہے۔ دنیا پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملا رہی ہے۔ شہباز حکومت پاکستان کو سیاسی و معاشی بحرانوں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات پہلے سے بہتر چل رہے ہیں، اہم ترین اتحادی جماعتیں بانی پی ٹی آئی سے الگ تھلگ حکومت اور ریاست کے ساتھ فی الحال ایک صفحے پر ہیں۔ کل کیا ہوتا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی پر صوابی میں پی ٹی آئی کا ”جشن فتح“ بُری طرح ناکام ہوا۔ امریکی پرچم بھی لہرایا گیا یہ سازش تھی یا کسی دل جلے کی امریکہ سے محبت کا شاخسانہ ، جو بھی ہوا منتظمین اس سازش یا منصوبے کو موقع پر ہی ناکام بنا دیتے تو اچھا تھا۔ بعد کی وضاحتیں کبھی کام نہیں آتیں۔ حقائق یہ ہیں کہ ٹرمپ آگئے اور چھا گئے۔ ہر طرف تھرتھلی مچا رکھی ہے۔ ٹرمپ کے قریبی ساتھی پاکستانی نژاد امریکی لابیسٹ ساجد تارڑ برملا کہہ رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی سابق حکومت ملکی معاملات چلانے میں برُی طرح ناکام رہی تھی۔ بانی صاحب کی بین الاقوامی غلطیوں کا اب تک ازالہ نہیں ہوسکا۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بانی پی ٹی آئی ہی تھے جنہوں نے بطور وزیراعظم امریکہ سے سی پیک کا سودا کرکے چین کو ناراض کیا۔ یہ ہم نہیںوہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محورہمیشہ سے ہی چین رہا ہے۔ امریکہ میں تو حکومتیں بدلتی ہیں ترجیحات نہیں۔ ٹرمپ پہلے بھی مودی کے یار تھے، اب بھی اسی کے ساتھ چلیں گے۔ افغانستان سے امریکی فوجیں نکلنے کے بعد پاکستان ٹرمپ کی ترجیحات میں ممکنہ طور پر شامل نظر نہیں آتا۔ تاوقتیکہ خطے میں ایران، اسرائیل جنگ کی صورت کوئی بڑا بحران رونما ہو جائے۔ جس کے امکانات بہت کم ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ جنگیں ختم کرکے معاشی اصلاحات چاہتے ہیں، بدلتے حالات پر گہری نظر رکھئے کہ ٹرمپ کی اتحادی مہم کے مرکزی کردار دنیا کے امیر ترین شخص ایلن مسک کی اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب سے ملاقات مستقبل قریب میں خطے میں امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی جانب ایک واضح اشارہ ہے کہ امریکہ اس خطے میں ایک نئی پالیسی کے ساتھ آرہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی یہ سوچ کہ وہ 24 نومبر کو اسلام آباد میں سیاسی ہنگامہ آرائی کی صورت کوئی نیا بحران پیدا کرکے ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ٹرمپ تو اپنا بندہ ہے اور’’ماہی آوئے گا میںپُھلاں نال دھرتی سجاواں گی‘‘ تیل مہندی والے گیت اور خیبرپختونخوا سے ایک ہی دلہے کی بار بار بارات لانے کی خواہش ایسی ہے کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔ آخر خالی جیب باراتی کتنی بار اکٹھے ہو کر” سلامیاں“ پیش کرنے اسلام آباد آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ گنڈا پور صاحب صوابی میں مجمع گیری میں ناکام رہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ باراتی اکٹھے کرنے کیلئےوزیرتعلیم خیبرپختونخوا فیصل ترکئی احتجاجی اساتذہ سے کہہ رہے ہیں کہ’’ کنے کنے جانا اےبلو دے گھر‘‘ وہ تنخواہیں، الاؤنسز، سرکاری اسکولوں کی نجکاری کے خلاف سراپا احتجاج دو لاکھ اساتذہ سے کہہ رہے ہیں کہ جس نے پیسے (تنخواہ) لینے ہیں، جسے ترقیاں،اپ گریڈیشن چاہئے وہ ہمارے ساتھ شریک احتجاج ہو جائے۔ وفاق کے خلاف لشکر کشی میں اساتذہ اپنا حصہ ڈالیں، ہمیں ہر روز جلسہ اور ہفتہ وار احتجاج کرنا ہوتا ہے جس کیلئے لوگوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اساتذہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیں۔ قبل ازیںگنڈا پور صاحب نے تو حد ہی کردی کہ اسلام آباد میں گزشتہ جلاؤ گھیراؤ کے دوران گرفتار سرکاری ملازمین کی رہائی پر ان کے اعزاز میں باقاعدہ استقبالیہ تقریب کا اہتمام کرکے اپنے ہاتھوں سے گل پاشی کی، اضافی تنخواہوں، چھٹیوں، ترقیوں سے نوازا گیا۔ گویا کہ اب خیبرپختونخوا میں تنخواہیں، ترقیاں، جلاؤ گھیراؤ سے ہی ملا کریں گی۔ خیبرپختونخوا کا خزانہ خالی ، صوبائی کابینہ کے اراکین کے سرکاری گھروں کی تزئین و آرائش کیلئے کروڑوں روپے کی ادائیگیاں، صوبائی اراکین کی تنخواہوں، مراعات میں کئی سو گنا فوری اضافہ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔یہ پالیسی خان کی سیاست کو لے ڈوبے گی۔