• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الحمدللّٰہ ۔ ہم خدا کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ بالآخر کسی کو تو خیال آیا کہ اِس ملک کا بنیادی مسئلہ اور اُس کا حل کیا ہے۔ اب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں منزل مقصود پانے سے نہیں روک سکتی، جنہیں منزلِ مقصود کا علم نہیں وہ جان لیں کہ تاندلیانوالہ میں چوہدری مقصود احمد کا گھر ہی ہماری منزل ہے۔ اگلے دو چار برس انتہائی اہم ہیں، اگر ہم نے اسی طرح اپنی سمت درست رکھی تو میں آپ کو دس روپے کے اِشٹام پیپر پر لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ ہم زیادہ سے زیادہ پانچ سال میں امریکہ کو پچھاڑ دیں گے، گوجرانوالہ میں نئی سلیکون ویلی بن رہی ہوگی اور لوگ پاکستان کی شہریت لینے کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر بحر اوقیانوس پار کرکے آیا کریں گے۔ اور اِس پورے کام کا کریڈٹ کسی اور کو نہیں صرف اسلامی نظریاتی کونسل کو جاتا ہے جس نے بروقت پاکستان کو درپیش مسائل کی نہ صرف درست تشخیص کی بلکہ لگے ہاتھوں اِس کا علاج بھی کر ڈالا۔ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک جسے مختصراًوی پی این کہا جاتا ہے اور جس کی مدد سے انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس دیکھی جاتی ہیں، اُس کا استعمال اسلامی نظریاتی کونسل نے غیر شرعی قرار دے دیا ہے۔ تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی۔ شاید آپ کو لگ رہا ہو کہ میں طنز کر رہا ہوں لیکن ایسی بات نہیں ہے، میں پوری سنجیدگی سے سمجھتا ہوں کہ اگر اسلامی نظریاتی کونسل نام نہاد خونیں لبرلز کے پرو پیگنڈے کی پروا کیے بغیر دو چار مزید ایسے کام کر ڈالے تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ مثلاً کونسل کو فوری طور پر موبائل فون کے استعمال کو بھی حرام قرار دینا ہو گا، یہ برائی کی جڑ ہے، نوجوان بچے بچیاں یہ شیطانی آلہ جیب میں لیے گھومتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انٹرنیٹ بدی کا اصل مرکز ہے، کونسل کو چاہیے کہ ایک فتویٰ اور جاری کرے جس میں صرف اُن ویب سائٹس کی فہرست ہو جنہیں دیکھنا حلال ہو جیسے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی اپنی ویب سائٹ، یا دیگر حکومتی اداروں کی سائٹس۔ مدارس کی ویب سائٹس غالباًزیادہ تعداد میں نہیں ہیں ورنہ انہیں دیکھنا بھی حلال بلکہ مستحسن ہوتا، اگر مدرسے اپنی ویب سائٹس بنا لیں تو ہماری نوجوان نسل صراط مستقیم پر چل نکلے گی، فقط ایک بات کا خیال رہے کہ مدرسوں میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کی کہانیاں اِن ویب سائٹس پر اپ لوڈ نہ کی جائیں ورنہ ہم منزل مقصود، جو کہ تاندلیانوالہ میں ہے، تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ ایک اور فتویٰ جسے جاری کرنا بے حد ضروری ہے وہ مصنوعی ذہانت کی تمام ایپس کو حرام قرار دینا ہے، میں نے سنا ہے کہ اِن ایپس کی مدد سے مصنوعی عورتیں بھی بنائی جا سکتی ہیں جن کے ساتھ آپ جب چاہیں جیسی چاہیں گفتگو کر سکتے ہیں، لاحول ولا قوۃ بلکہ استغفر اللہ۔ ظاہر ہے کہ عورت کے ساتھ فحش گفتگو ہی کی جا سکتی ہے اور تو اُس کا کوئی مصرف نہیں، لہٰذا مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی شرعاًنا جائز ٹھہرا۔

کچھ شرپسند عناصر یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کونسل نے وی پی این کے خلاف فتویٰ دے کر اپنی جگ ہنسائی کی ہے، اِن فتنہ پردازوں کا کہنا ہے کہ دنیا مریخ پر کمند ڈالنے کی تیاری کر رہی ہے جبکہ ہم انٹرنیٹ کو بند کرنے کے درپے ہیں، اور یہ منفی خبریں بھی زیرِ گردش ہیں کہ وی پی این کی بندش سے ہماری آئی ٹی کی برآمدات کم ہو جائیں گی۔ ویسے تو اسلامی نظریاتی کونسل خود ہی اِس پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اِس نیک کام میں یہ حقیر پُر تقصیر (جس کا نہ جانے کیا مطلب ہے) بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔ جو نام نہاد مغرب زدہ لوگ مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں انہیں اندازہ ہی نہیں کہ یہ فتویٰ ہماری نجات کا باعث بنے گا، قیامت کے دن ایک سوال وی پی این کے بارے میں بھی ہوگا، وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں پی ٹی اے سے منظور شدہ وی پی این استعمال نہیں کیا ہو گا، داروغہ جہنم انہیں کالر سے گھسیٹتا ہوا دوزخ میں لے جائے گا۔ یہ بات مجھے محلے کے مولوی صاحب نے بتائی جنہوں نے وی پی این کو غیر شرعی قرار دینے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔ اور یہ نہ جانے کس مسخرے کا خیال ہے کہ ہماری آئی ٹی برآمدات اِس فتوے کی وجہ سے گھٹ جائیں گی، بندہ پوچھے کہ آج سے پہلے جب نہ یہ فتویٰ تھا اور نہ ہی ملک میں انٹرنیٹ کی بندش کا کوئی مسئلہ، اُس وقت کیا ہماری برآمدات اربوں ڈالر بڑھ گئی تھیں؟ سچ پوچھیں تو ہمیں اِس گومگو کی حالت سے نکلنا ہوگا، یہ انٹرنیٹ، موبائل فون، ٹی وی، کمپیوٹر، اِن تمام خرافات سے جان چھڑانی ہو گی، اِسی میں ہماری نجات ہے، باقی رہی بات دنیاوی ترقی کی تو افغان طالبان کا ماڈل ہمارے سامنے ہے جو نہایت کامیابی سے چل رہا ہے، ہمیں اُس کی تقلید کرنی چاہئے۔

آپ یقیناً تسلیم کریں گے کہ میں نے پوری نیک نیتی کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کا مقدمہ لڑا ہے اور وہ بھی فی سبیل اللّٰہ، تاہم بغیر پیسوں کے اتنا ہی کام کیا جا سکتا تھا۔ اب کونسل کو میری تجویز ہوگی کہ اپنے فتوے پر عملدرآمد کروانے کیلئے ایک علیحدہ وِنگ بنائے جہاں جدید ماڈل کے لیپ ٹاپ ہوں، تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہو اور وی پی این استعمال کرنے کی کوئی حد مقرر نہ ہو (ماہانہ ہدیہ دے کر یہ انتظام کیا جا سکتا ہے)، اور اِس ونگ کی ذمہ داری فدوی کو سونپ دی جائے۔ یہ فقیر اپنا کام دھندا چھوڑ کر دن رات وی پی این کی مدد سے غیر شرعی ویب سائٹس کا سراغ لگائے گا اور اُن کی ہفتہ وار رپورٹ اسلامی نظریاتی کونسل کو پیش کرے گا۔ ویسے تو اِس کام کا اجر روزِ قیامت ہی ملے گا مگر دنیا میں بھی معاوضہ لینے میں کوئی حرج نہیں، کونسل جو بھی دے گی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کی خاطر یہ فقیر قبول کر لے گا۔ مجھے یقین ہے کونسل میری اِس مخلصانہ پیشکش سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔ رات کا ڈیڑھ بج رہا ہے، میں ابھی سے یہ کام شروع کرنے لگا ہوں، وی پی این انسٹال کر لیا ہے، اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں!

تازہ ترین