• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں کچھ اڑتی اڑتی خبریں زیر بحث ہیں ۔ اسلام آباد میں برطانوی سفیر کی رہائش گاہ پرکنگز برتھ ڈے پارٹی سے لے کر لاہور میں اطالوی سفیر کی جانب سے دیے گئے اطالوی فوڈ فیسٹیول تک ،جس میں انہوں نے اٹالین کھانوں کی تیاری کیلئے باورچی بھی اٹلی سے ہی بلوائے تھے کیوں کہ اٹلی اپنے کھانوں کی یہ تقریب پوری دنیا میں منعقد کرتا ہے اور ان کھانوں کی میز پر بھی برطانوی ہائی کمشنر کی جانب سے دی گئی دعوت کی مانند مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان گفتگو ممکنہ پاکستانی سیاسی و سفارتی امور پر تھی۔ خبر سب سے گرم یہ تھی کہ عمران خان کو پاکستان کے کچھ عرب دوست ممالک رہائی دلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انکی خواہش ہے کہ 190ملين پاؤنڈ کے کیس کے فیصلے سے قبل یہ ڈیل انجام پا جائے کیونکہ اس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس کیس میں عمران خان کیلئے بچنا نا ممکن ہے کیوں کہ کیس بالکل واضح ہے۔ میرے استفسار پر ایک دوست نے کہا کہ اس ڈیل میں ٹرمپ کی آنے والی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ عمران خان اس پر راضی ہو گئے ہیں کہ وہ اگلے پانچ برس تک زبان بندی کی پابندی کریں گے مگر بات صرف اس پر اڑی ہوئی ہے کہ طاقت ور حلقوں میں ایک مؤثر گروہ یہ سوچ رکھتا ہے کہ جب انکو عدالت کی جانب سے سزا مل جائیگی تو انکو کسی عرب ملک جانے کا ریلیف دینے کی کیا ضرورت ہے اور معاملات کو مکمل طور پر قانون کے تحت ہی چلنے دیا جائے۔

ایک یہ بھی سوال زبان زد عام ہے اور مجھ سے بھی پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اور چین دونوں کیلئے پاکستان کی حیثیت بتدريج غیر اہم یا غیر متعلق ہو گئی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے، امریکہ میں کوئی بھی بر سر اقتدار ہو جب بھی وہ اس خطے کی پالیسی کو تشکیل دے گا تو اس وقت پاکستان کو چاہے جنوبی ایشیا ہو، مشرق وسطیٰ، چین ہو یا بحر ہند نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ امریکہ کی اس وقت داعش یا دوسرے الفاظ میں افغانستان کی جانب سے اٹھنے والے تمام فتنوں سے اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کیلئے کڑی نظر ہے اور وہ کسی بھی صورت افغانستان کے حالات کو امریکہ کی سلامتی کیلئے کسی بھی سطح کا خطرہ بننے دینے والے ہر عامل کی بیخ کنی کرنا چاہتا ہے اور اس کیلئے وہ پاکستان سے تعاون حاصل کرنا چاہے گا مگر خیال رہے کہ سر دست اس کا مسئلہ صرف امریکہ کی سلامتی سے جڑے ہوئے امور ہیں اور وہ اسکے علاوہ کسی بھی صورت حال کو اپنے لئے اہم نہیں گردانتا۔ افغانستان ٹرمپ کی قومی سلامتی کی حکمت عملی میں کس حد تک اہم ہوگا اس امر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مائیک والٹز کو مقرر کیا ہے کہ جو اپنے فوجی کیریئر میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور افغانستان میں تعینات رہا اور اس نے 2014 میں معروف کتاب

Warrior Diplomat:

A Green Beret's Battles from Washington to Afghanistan۔

تحریر کی تھی۔ پاکستان کا مسئلہ صرف امریکہ کی نئی انتظامیہ کے حوالے سے یہ ہے کہ یہاں پر ریپبلکن پارٹی کے ساتھ سیاست دانوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کے تعلقات رہے مگر یہ بش دور کی ریپبلکن پارٹی تھی، ٹرمپ دور کی ریپبلکن پارٹی کے یہاں پر کوئی مراسم نہیں۔ ممالک نے یہاں تک کہ امریکہ کے مخالف ممالک نے بھی امریکی انتخابات سے قبل ہی ٹرمپ کے ساتھ رابطوں کا آغاز کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر ایران کے لوگوں نے ایک تیسرے ملک میں ٹرمپ کے لوگوں سے ملاقات کی تھی مگر ہم نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی اور سفارت خانے کی سطح پر ایسی کوئی کوشش ہو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ کام سفارت خانوں کا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کیلئے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف اس بنا پر یہ خلا محسوس ہو رہا ہے اور اگر اب بھی اہداف اور اپنی ضروریات اور وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی تشکیل دی جائے تو یہ خلا پر کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے یہ تصور بھی کرنا کہ چین کیلئے پاکستان غیر متعلق ہو گیا ہے نادانی کی بات ہے۔ پاکستان سے برادرانہ تعلقات سے لے کر انڈیا کے علاقائی بالا دستی کے خواب کو پورا کرنے کیلئے بحر ہند میں بڑھتے قدم تک، یہ سب پاکستان اور چین کے اسٹرٹیجک مفادات کو چیلنج کرنے والے عوامل ہیں اور دونوں ممالک اسکو مشترکہ خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے محل وقوع کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ چین سے مسائل یہ ہیں کہ ابھی سی پیک کے پہلے فیز کا اہم ترین منصوبہ ایم ایل ون کھٹائی میںہے اس لئے دوسرے فیز کے آغاز کی بات مناسب نہیں، اسی طرح جس انڈسٹری نے 2016ءیا 2017ءمیں پاکستان آنا تھا وہ اس وقت کئے گئے تجربہ کی بھینٹ چڑھ گئی، دہشت گردی دونوں ممالک کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے جس کا تدارک ہونا چاہئے مگر اس کیساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کے سامنے مسائل آتے ہی رہیں گے اور یہ ایک مستقل جدو جہد یا لڑائی ہے جو لڑنی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے چینی دوستوں کے سامنے اس حوالےسے اپنا مؤقف درست انداز میں پیش نہیں کیا، ان معاملات کو بھی حل کیا جا سکتا ہے اگر تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ ابھی جب ایس سی او کانفرنس ہونے والی تھی تو مجھ سے بیجنگ میں مقیم میرے ایک چینی دوست نے کچھ سوالات پوچھے جس میں سے میں نے ایک کے جواب میں کہا کہ چینی وزیر اعظم کو یا انکی ٹیم کے کسی فرد کو بھی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا نہیں کہنا چاہئے کیوں کہ اس سے اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔

تازہ ترین