(گزشتہ سے پیوستہ)
ماڈل ٹائون میں تو میں آگیا۔وہاں ہائی اسکول میں بھی داخلہ مل گیا۔ سو پہلے مجھے اپنے نئے اسکول کے بارے میں بتانا ہے۔یہاں آ کر کچھ ایسے لگا کہ میں امریکہ کے کسی اسکول میں داخل ہوگیا ہوں۔ اس مبالغہ آرائی کی وجہ وزیرآباد کا پرائمری اسکول تھا جہاں ہم فرش پر بیٹھ کر حصول تعلیم کرتے تھے۔ جبکہ یہاں میزیں اور کرسیاں تھیں۔ اسکول کا بینڈ بھی تھا جس کا ایک رکن میں بھی تھا، میں گردن میں بڑا ڈھول ڈالے موسیقی کی ایسی کی تیسی پھیرا کرتا تھا، یہاں باقاعدہ صبح ’’پرے‘‘ بھی ہوتی تھی۔ ممتاز افسانہ نگار ذکا الرحمٰن (مرحوم) اور شاعر ناصر زیدی (مرحوم) بھی اسی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ ایک دفعہ ذکا الرحمٰن نے مجھے اور ناصر زیدی کو ایک خوبصورت نظم سنائی جس کا ایک آدھ بند ابھی تک یاد ہے۔
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سن اے جباری مجرم ہیں
حق گوئی بھی ہے جرم کوئی
تو پھر ہم ہاری مجرم ہیں
ہم نے ذکا الرحمٰن کو بہت داد دی جس پر اس نے مشفقانہ انداز میں کہا تم لوگ میرے پاس آیا کرو، تم بھی شعر کہنا سیکھ جائو گے۔ یہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ نظم نعیم صدیقی کی تھی، جس پر ذکا نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا۔ اسکول میں ایک لڑکا افتخار بھی تھا جسے افتخار ’’کھڑکنا‘‘ کہا جاتا تھا اس کے کان بہت لمبے تھے وہ آئے روز نت نئی شرارتیں کرتا، چنانچہ صبح دعا کے وقت سارے اسکول کے سامنے اسے کان پکڑائے جاتے تھے اور اسے ماسٹر حسن بخت (جو بہت عمدہ شاعر بھی تھے) چھڑی سے اس طرح مارتے کہ مار پڑنے والے کو لگتا اسے کوڑے مارے جا رہے ہیں، ہمارے اساتذہ میںدو اساتذہ ایسے تھے جو بھلائے نہیں بھولتے۔ ان میں ایک (میں نام نہیں لکھتا) شاید بہت دکھی تھے اور انہیں پوری زندگی میں کوئی خوشی دیکھنا نصیب نہیں ہوئی تھی، وہ کسی کو ہنستا نہیں دیکھ سکتے تھےبلکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ اگر صدر اسکندر مرزا کی جگہ ہوتے تو ایک آرڈر جاری کرتے کہ جو ہنسے اسے پھانسی پر لٹکا دو۔ ایک دن سخت سردیوں کے موسم میںماسٹر صاحب ایک کھالے، ماڈل ٹائون میں کوٹھیوں کو ہرا بھرا رکھنے کیلئے ایسے کھالوں کا انتظام تھا،افتخار کھڑکنے کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے ماسٹر صاحب کو دھکا دے دیا، ٹھنڈے یخ پانی نے ماسٹر صاحب کو جو اذیت دی ہوگی اس کا تھوڑا سا اندازہ اس کے کلاس فیلوز کو بھی ہوا ،جب ماسٹر جی نے افتخار کو کھڑا کرکے جو منہ میں آیا اسے سنا ڈالا۔ اس کے ساتھ بار بار کہتے ’’اوئے تجھے پتہ نہیں پانی کتنا ٹھنڈا تھا‘‘۔ پھر انہوں نے افتخار کی دو انگلیوں کے درمیان پنسل رکھ کر اتنی دیر تک دبایاکہ افتخار بے ہوش ہونے کے قریب ہوگیا۔ صبح دعا کے وقت سزا کا دورانیہ اس کے علاوہ تھا۔
ایک اور ماسٹر جی جو ہمیشہ شلوار کرتے میں ملبوس ہوتے ہمارے لئے بیک وقت سزا اور جزا کا باعث بنتے، جب وہ کلاس میں داخل ہوتے تو حسب معمول لڑکے شور مچا رہے ہوتے، ماسٹر جی اندھا دھند پہلے نظر آنے والے لڑکے کو بید مارتے، بید کھا کر وہ کہتا سر میں نہیں ، وہ شور مچاتا تھا ، یہ سن کر ماسٹر جی اس ’’وہ‘‘کی طرف یہ کہتے ہوئے جاتے کے مجھے تم پر پہلے ہی شک تھا، یوں پوری کلا س ایک دوسرے کو مار پڑواتی اور ہنستی بھی چلی جاتی، ہمارے فارسی کے استاد ماسٹر تاباں تھے، خالص لکھنوی انداز، وہ سردیو ںمیں کلاس روم کی بجائے باہر دھوپ میں پڑھانا پسند کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ مجھے اور ناصر زیدی کو مخاطب کرکے کہتے ’’جیسی تمہاری کرتو تیں ہیں لکھ لو ’’گنڈیریاں بیچو گے گنڈیریاں‘‘ میں اور ناصر زیدی اسکول کے زمانے میں بھی شاعری کو منہ مارتے تھے اور ایک دوسرے کو کھل کردا د دیتے تھے۔
اب شاعری کا ذکر آیا ہے تو نذیر قیصر کا ذکر ناگزیر ہے میں اے بلاک میں رہتا تھا اور نذیر قیصر ایک فرلانگ کے فاصلے پر بی بلاک میں۔ میں چھٹی والے دن یا کام کاج سے فارغ ہو کر اس کی طرف چلا جاتا۔ وہ اس وقت بھی اتنا ہی اسمارٹ تھا اور اچھے نقش و نگار کا مالک تھا۔ ہم دونوں ماڈل ٹائون کی سڑکو ںپر سیر کرتے اور اس دوران قیصر مجھے اساتذہ اور عہدِ حاضر کے نامور شعراء کے شعر سناتا رہتا۔ اور ہاں یہ عرض کردوں کہ میں جیسے تیسے میٹرک پاس کر چکا تھا اور ایم اے او کالج میں داخلہ لے لیا تھا،اس دوران نوائے وقت میں کچھ لکھنا لکھانا بھی شروع کردیا تھا ،بہرحال اس دوران نذیر قیصر کی صحبت میری شعری تربیت کا باعث بنی، حتیٰ کہ جب میں نے نوائے وقت میں باقاعدہ کالم نگاری کا فیصلہ کیا تو میرے کالم کا عنوان ’’روزن دیوار سے‘‘ بھی اس نے منتخب کیا، پھر اس نے مجھے ایک استاد کا شعر بھی بنایا جس میں سے اس نے کالم کا عنوان چنا تھا ، شعر تھا :؎
جھانکتے تھے وہ ہمیں جس روزنِ دیوار سے
وائے قسمت ہو اسی روزن میں گھر زنبور کا
سو مجھے اعتراف کرنے دیں کہ مجھ شریف آدمی کو اس کار زیاں کی طرف لانے والا نذیر قیصر تھا اور مجھے بے حد خوشی ہے کہ اس وقت قیصر کا شمار نئی وضع کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ میرا پیارا ماڈل ٹائون کہیں بہت پیچھے رہ جائے گا کیونکہ بات میں سے بات نکلتی چلی آ رہی ہے ، ابھی میں نے ایم او کالج کا ذکرکردیا تو اب اس کالج کی یادوں کو کہاں لے کر جائوں، میں نے یہاں زندگی کےبہترین دن گزارے۔ میٹرک بھی میں نے بڑی مشکل سے کیا تھا، ایف اے میں فیل ہوگیا اور یوں اس مزیدار کالج میں ’’قیام‘‘ کا ایک اور سال مل گیا۔ کالج کے پرنسپل شہرۂ آفاق ڈاکٹر پروفیسر دلاور حسین تھے وہ بہت رونقی اور بالکل مختلف شخصیت کے مالک تھے۔ وہ فلسفے کی کلاس لیتے تھے، اب مجھے یاد نہیں کہ میں کیسے ان کی کلاس میں چلا گیا، انہوں نے پڑھاتے پڑھاتے مجھے مخاطب کیا اور کہا تم میرے بارے میں کیا انٹ شنٹ بولتے رہتے ہو۔ میں نے کہا سر کسی نے آپ کو غلط بتایا ہے، میں نے تو آپ کے بارے میں کبھی ایسی بات نہیں کی۔ یہ سن کر انہوں نے اپنا ہیٹ اتارا اور اس میں سے میرا کالم نکال کر مجھے دکھایا جو انہی کے بارے میں تھا۔ دلاور صاحب کا ذکر ان چند لائنوں میں ممکن نہیں، لہٰذا اب آپ کل تک انتظار کریں۔ (جاری ہے)