• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہری زندگی اور معاشرتی رویوں میں احساسِ ذمے داری اور فرض شناسی

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

قطار بنائیں، اپنی لائن میں رہیں ، ٹریفک قوانین کی پابندی کریں۔ گندگی مت پھیلائیں، کوڑا کوڑے دان میں ڈالیں، یہاں پان تھوکنا منع ہے، یہاں گندگی ڈالنا منع ہے، یہ اور اس طرح کی دیگر بہت سی مختلف ہدایات روز ہماری نظروں سے گزرتی ہیں لیکن ان ہدایات کی عملاً پیروی تو دور کی بات ہے ہم دانستہ اسی جگہ پان تھوکتے اور اس کے خلاف کرتے ہیں جہاں پر اس کی ممانعت لکھی ہوتی ہے۔ 

کسی بھی معاشرے کے لوگوں کے اخلاقی و معاشرتی رویے ان چھوٹی چھوٹی باتوں اور ضروری عادات سے جانچنے میں مدد ملتی ہے۔ جنہیں عرفِ عام میں تمدنی و معاشرتی رویے یا سوک سینس کہا جاتا ہے۔ فی زمانہ گرد و پیش پر نظر ڈالیں تو لوگوں کو اس بات کو کہتے سنا جاتا ہے کہ سماجی قواعد اور اخلاقی ضابطوں پر عمل کیا جانا چاہیے، لیکن عملاً بہت کم لوگ ایسا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بہت بنیادی چیزیں ہیں جو کسی کے اخلاق اور اس کے معاشرتی رویے کے بھی عکاس ہوتی ہیں۔ 

موجودہ دور میں ہم جب اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی اخلاقی اقدار اور معاشرتی رویے زوال اور گراوٹ کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ ہر چند کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شعور کی دولت دی ہے جس سے وہ اپنے رہنے سہنے کے طور طریقے سیکھ کر ان کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت و اہلیت رکھتا ہے۔ 

بہ حیثیت مسلمان ہمارے پاس قرآن و سنت کی شکل میں معاشرتی زندگی گزارنے کی تعلیمات و ہدایات، معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق و فرائض کی ادائیگی کا پورا نظام العمل موجود ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو آسان ترین طریقے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق بسر کر سکتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر شعور شہریت پیدا کر کے اس بات کا احساس بھی پیدا کریں کہ ہمیں ایک اچھا باشعور متمدن و مہذب انسان اور بہترین مسلمان بننا ہے۔ 

قرآنی تعلیمات ہوں یا احادیث مبارکہ، ہمیں جابجا اپنی انفرادی شہری ذمہ داریاں پوری کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں جہاں ہمیں اقرار ، عہد و پیمان پورے کرنے، رشتے داروں ، مسافروں اور محتاجوں کو ان کا حق ادا کرنے، اچھی بات کرنے اور اس طرح دیگر انفرادی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہیں ایک دوسرے کا مال نا حق کھانے، فضول خرچی کرنے یعنی و سائل ضائع کرنے، غیبت اور بد گوئی کرنے، نا حق کسی کی جان لینے، اجازت لیے اور سلام کیے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہونے، فضول باتیں اور کثرت سے سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ 

اسی طرح احادیث میں بھی ایک اچھا شہری اور بہترین مسلمان بننے، معاشرتی بھلائی کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں اچھا شہری اور بہترین مسلمان بننے کی کتنی خوبصورت تلقین کی گئی ہے کہ’’ اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا تمہارے لئے صدقہ ہے، بھٹک جانے والے کو راستہ دکھانا صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا بھی تمہارا صدقہ ہے ، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لئے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا تمہارے لئے صدقہ ہے۔‘‘

یہ اور اس طرح کی بے شمار تعلیمات دراصل ہمیں دنیوی زندگی کو خوبصورت آرام دہ بنا کر اور دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرکے اللہ کی رضا حاصل کرنے پر ابھارتی ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر صرف ملکی قوانین اور شہری ضابطے ہی نہیں، بلکہ دینی تعلیمات میں بھی ہم سے ایک بہترین شہری بننے کی توقع رکھی گئی۔ گویا احساس و شعور شہریت کے بغیر ہم اچھے مسلمان بھی نہیں کہلائے جاسکتے۔

معاشرے میں لوگوں کو تکلیف و اذیت پہنچانے کی شناعت و قباحت کا اندازہ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں لوگوں کو اپنے ہاتھ اور زبان کی تکلیف اور ایذا سے محفوظ رکھنے کو اسلام اور مسلمانیت کا معیار قرار دیا گیاہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’(حقیقی و کامل ) مسلمان تو صرف وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان کی (ایذا رسانی) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘(صحیح بخاری) 

مذکورہ بالا حدیث نبوی ہمارے شہری شعور اور معاشرتی رویوں کا مکمل تعین اور احاطہ کرتی ہے۔ آیئے ہم اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں روزہ مرہ کے معاملات اپنے چند معاشرتی رویوں کی خامیوں اور خرابیوں اور اپنے شہری شعور سے تہی دامنی کا جائزہ لیں۔

ہمارا یہ روز کا مشاہدہ کہ ہم جب اپنی گلی یا کسی سڑک پراپنی کار یا موٹر سائیکل کو پارک کرتے ہیں تو اسے اس جگہ کھڑا کر تے ہیں جو لوگوں کے چلنے گزرنے کی جگہ ہوتی ہے ۔ مثلاً کسی گلی یا سڑک کے درمیان میں گٹر کا پانی بہہ رہا ہے تو ہم اپنی کار یا بائیک کو سڑک کے کنارے یا گلی کے دونوں اطراف میں اس جگہ کھڑی کرتے ہیں، جہاں گٹر کا یہ گندہ پانی نہیں ہے اور جگہ خشک ہے۔ حالانکہ یہ خشک اور گندے پانی سے خالی جگہ انسانوں کے چلنے کے لئے ہے اور ہم نے اپنی کار انسانوں کے چلنے کی جگہ پارک کر دی اور انسانوں کے چلنے کے لئے گندے پانی کی جگہ چھوڑ دی ہے۔ 

انسان چاہے کتنا ہی فقیر اور گیا گزرا کیوں نہ ہو، وہ بہت قیمتی ہے، وہ اس گندگی کیچڑ پانی میں چلنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ۔ اب کیا ہو رہا ہے کہ گندے پانی سے گزر کر لوگ نماز کے لئے مسجد جانے پر بھی مجبور ہیں، کیوں کہ ہماری ’’قیمتی ‘‘ کار تو اس خشک جگہ پر کھڑی ہے، جو ان نمازیوں کے چلنے اور گزر کر مسجد جانے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے تھی۔ اب ذرا اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے مسلمان ہونے یا نا ہونے کا جائزہ لیں کہ  ’’مسلمان توو ہی ہے ۔ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

اسی طرح ہم مرکزی شاہراہوں پر اپنی دکانوں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ مناظر نظر آتے ہیں کہ ہم نے ان دکانوں کا اکثر سامان فٹ پاتھوں پر سجا کر رکھا ہے حالانکہ یہ فٹ پاتھ تو پیدل چلنے والوں کے بنائے گئے ہیں، لیکن ہم نے ان فٹ پاتھوں پر اپنا سامان خرید و فروخت رکھ دیا اور پیدل چلنے والوں کو سڑک کے بے رحم ٹریفک کے درمیان چلنے پر محبور کردیا۔ یہ اور ایسی بہت سی مثالیں ہما رے معاشرتی رویوں کی خرابی اور ہمارے معاشرتی وشہری شعور کو منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔

اسی طرح ہمارا ایک اور شہری شعور سے تہی خراب معاشرتی رویہ راستوں کے درمیان کرسیاں ڈال کر یا دری چادر بچھا کر بیٹھ جانا اور وہاں دوستوں کے ساتھ تاش ، لوڈ و اور ایسے ہی دیگر مشاغل کی محفل جمالینا ہے۔ یہ اللہ اور رسولﷺ کی تعلیمات کے بالکل منافی انتہائی اذیت ناک طریقہ ہے۔ اسلام کی معاشرتی و شہری شعور پر مبنی تعلیمات میں اسے ’’راستے کا حق ‘‘ کے عنوان سے معنون کیا گیا ہے۔ 

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو’’ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ، ہمارے لئے تو باہم گفتگو کرنے کے لئے راستوں میں بیٹھنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا ’’اچھا اگر تم وہیں بیٹھنا چاہتے ہو تو راستے کو اس کا حق ادا کردیا کرو،’’ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ راستے کا حق کیا ہوتا ہے؟ فرمایا کہ ’’نگاہیں بچا کر رکھنا، تکلیف دہ باتوں سے باز رہنا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانا۔ ‘‘(بخاری، مسلم) 

معلوم ہوا کہ اگر ہمارے گھر میں گنجائش نہیں ہے اور ہم اس کے لئے مجبور ہو کر گھر کے باہر جہاں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے، اپنے ملنے والوں یا ملاقاتیوں سے گفتگو کریں تو پھر ہمیں راستے کا حق ادا کرنا ہوگا، اور وہ حق یہ ہے کہ ہم اپنی نظروں کو نیچا رکھیں، آنے جانے والی خواتین سے اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں، اور ہماری کوشش یہ ہو کہ ہماری وجہ سے لوگوں کو اذیت اور تکلیف نہ ہو اور حسبِ موقع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض بھی ادا کرتے رہیں۔

ہمارا تو حال یہ ہے کہ ہم جب راستے پر محفل جماتے ہیں ، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا تو درکنا ر ہم تو خود لغو عمل اور لہوو لعب میں مصروف ہوتے ہیں۔ راستوں پر اس ایذا رسائی کا بد ترین مظاہرہ ہم عید الاضحی کے موقع پر اپنے دروازوں کے سامنے گلیوں میں قربانی کے جانور باندھ کر کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر ان جانوروں کو گلیوں سڑکوں راستوں پر ذبح کر کے ان کے خون اور آلائشوں سے راستوں اتنا آلودہ گندا متعفن کرتے ہیں کہ لوگوں کے لئے راستہ چلنا محال اور گھر میں رہنا اجیرن ہو جاتا ہے۔

اگر ہم دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے گھروں، شہروں ، دیہاتوں میں مثالی معاشرتی ماحول شہری شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس عزم و ارادے کو روبعمل لانے کے لئے ہمارے پاس حقوق العباد کے عنوان سے قرآن و سنت پر مبنی عظیم، شاہکار اور لازوال اسلامی تعلیمات کا بیش قیمت و بے بہا ذخیرہ موجودہے ضرورت اگر کسی بات کی ہے تو وہ عمل ہے، کمی کسی چیز کی ہے تو وہ عمل ہے۔