• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بائیس فروری کا ایک خوشگوار دن تھا۔ لاہور شہر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔جہاں جہاں سے اسلامی ممالک کے سربراہوں نے گزرنا تھا۔ حکومت نے ان راستوں کو خوبصورت بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی حتیٰ کہ لوگوں کے گھروں کا باہر سے اپنے خرچ پر رنگ روغن کرا دیا تھا ۔شیخ مجیب الرحمن کوالجزائر کے صدر کا طیارہ گزشتہ شام ڈھاکہ سے لاہور لا چکا تھا ۔ذوالفقار علی بھٹو ایک دن پہلے اعلان کر چکے تھے کہ اللّٰہ کے نام پر میں پاکستانیوں کی طرف سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہوں ۔کل وہاں سے کچھ لوگ آئیں گے اور میں سات کروڑ مسلمانوں کی طرف انہیں گلے لگائوں گا ۔سربراہی کانفرنس کا اجلاس شروع ہوا تو شیخ مجیب الرحمن نے ذوالفقار علی بھٹو کو گلے کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بہرحال ہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔تقریباً چار ماہ بعد ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ گئے اورجنگ کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر معافی مانگی جو قبول کر لی گئی مگر انڈیا کے گہرے اثرات کے سبب بنگلہ دیش پاکستان سے دور رہا۔ وہاں انہی لوگوں کو اقتدار میں آنے دیا جاتا رہا جو پاکستان مخالف تھے۔ جن جن کے بارے میں یقین تھا کہ یہ پاکستان دوست ہیں انہیں پھانسیوں پر لٹکایا جاتا رہا ۔ بے شمار جیلوں میں فوت ہو گئے ۔وہاں اچھی ملازمتیں بھی صرف انہی کو ملتی تھیں جنکے بارے میں یقین ہوتا تھا کہ یہ لوگ پاکستان کے خلاف ہیں۔عام ملازمتوں میں بھی کوٹا سسٹم رکھا گیا تھا کہ انہی لوگوں کے بچوں کو ملازمتیں دی جائیں جو پاکستان کے خلاف تھے۔ یہ کچھ زیادہ لوگ نہیں تھے مگراقتدارپر انہی کا قبضہ تھا اور ساری پلاننگ انڈیا کی طرف سے کی گئی تھی کہ کہیں ایسے لوگ اقتدار نہ آجائیں جنکے دلوں میں پاکستان دھڑکتا ہو،اسے معلوم تھا کہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والے اکثریت میں ہیں۔ وہاں پاکستان اورپاکستانی فوج کے خلاف ایک بڑا پروپیگنڈا شروع کیا گیا تھا کہ انیس سو اکہتر میں انہوں نے کیا کیا ظلم کیے۔ جنگ میں نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ غلطیاں ہوجاتی ہیں مگر وہاں کے نصابوں میں ان غلطیوں کو ضربیں دے دے کر بیان کیا گیا۔ پاکستان مخالف میوزیم بنائے گئے۔ لیکن حقائق جاننے والے لوگ بھی اپنی نسلوں کو بتاتے رہے کہ یہ سارا کچھ سچ نہیں۔ اس سارے خرابے میں اصل کردار انڈیا کا تھا سو وہاں کے عوام انڈیا سے اتنے قریبی مراسم کے باوجود اس کے حق میں نہیں تھے۔ آخر کار بنگالیوں کی قوتِ برداشت ختم ہو گئی۔ عوام گھروں سے باہر نکل آئے اور بھارت نواز حسینہ کو بہا لے گئے۔ بھارت پیچ و تاب کھاتا رہ گیا بلکہ مسلسل تکلیف میں ہے۔ بھارتی میڈیا نے بنگلہ دیش کےخلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے، کبھی الزام لگایا جاتا تھا کہ وہاں ہندووں کے ساتھ بہت ظلم ہورہے ہیں، کبھی تاریخ کو مسخ کرنے کے الزام لگائے جاتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے گرا دئیے گئے ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کے بانی کے طور پر پینٹ کیا ہوا تھا مگر عوام نے اس بات کو بھی مسترد کر دیا۔ برمنگھم میں رہنے والے ایک بنگالی دوست نظام الدین سے اس موضوع پر بات ہوئی تومیں حیران رہ گیا، اس نے کہا ’’بے شک اکہتر میں اچھا نہیں ہوا مگر سچ یہ ہے کہ پاک بھارت جنگ میں کچھ بنگالیوں نے بھارت کا ساتھ دے کر اپنے ملک کے ساتھ غداری کی تھی۔ جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا تو اس نے بنگلہ دیش بنوایا۔ میرے خیال میں ہم بنگالیوں کو پاکستانیوں سے اس جرم پر معافی مانگنی چاہئے، جہاں تک بنگالیوں کے ساتھ مظالم کا تعلق ہے توان میں اکثریت انہی کی تھی جنہوں نے ملک سے غداری کی۔ ہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ سوکھی لکڑی کے ساتھ گیلی لکڑی بھی جل جاتی ہے‘‘۔ پہلی بار پاکستان اور بنگلہ دیش کے مراسم میں بہتری آ رہی ہے۔ طویل عرصہ بعد پاکستان کا ایک تجارتی بحری جہاز چند دن پہلے چٹاگانگ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا ہے اور امکان ہےکہ دونوں ملکوں کے درمیان ہر سال تقریباً دو سے تین ملین ڈالر کا بزنس ہو گا۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ اگست 2022 میں بنگلہ دیشی حکومت نے پاکستانی بحریہ کے جہاز پی این ایس تیمور کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی تھی، تعلیم کے شعبے میں تعلقات کی بحال ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی ڈھاکہ یونیورسٹی کے سینڈیکٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ اب یہاں پاکستانی طالب علموں کو بھی داخلہ دیا جائیگا۔ یہ بات اس لئے اہمیت رکھتی ہے کہ پہلے بنگلہ دیش کی یہ واحد یونیورسٹی تھی جس میں پاکستانی طالب علموں کو داخلہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ توقع ہے کہ جلد پاکستانی یونیورسٹیوں اور بنگلہ دیش کی یونیورسٹیوں میں بھی روابط بڑھیں گے۔ ثقافتی طائفوں کی آمدورفت بھی شروع ہو جائے گی۔ پچھلے سال حکومت پاکستان نے اداکارہ شبنم کو بنگلہ دیش سے بلا کر ستارہ امتیاز دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ پاکستانی ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔ اگرچہ انیس سو اکہتر کے بعد وہاں سے اردو زبان کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ایمسٹرڈیم سے محمد حسن لکھتے ہیں کہ ’’ملک کے تمام اردو اسکولوں اور کالجوں کو بنگلہ میڈیم میں تبدیل کر دیا گیا، اردو لائبریریوں کو لوٹ لیا گیا اور اردو کےنادر اثاثوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ بیشمار اردو بولنے والوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو پناہ گزنیوں کے کیمپوں میں ایک غیر انسانی زندگی گزارنے کیلئے منتقل کر دیا گیا اور انہیں بنیادی حقوق سے محروم ہونا پڑا۔ مگر وہاں اردو زبان کو ختم نہ کیا جا سکا۔ مدارس میں ذریعہ ِ تعلیم اردو رہا۔ یونیورسٹیوں میں بھی اردو پڑھائی جاتی رہی۔ آج بھی غیر اعلانیہ اردو وہاں کی دوسری بڑی زبان ہے۔ یعنی تمام تر کوشش کے باجود انڈیا بنگالیوں کے دلوں سے پاکستان نہیں نکال سکا۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بنگالیوں سے محبت کریں۔ وہی محبت جو کبھی بحیثیت پاکستانی ان کا حق تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو بنگلہ دیش کا دورہ کرنا چاہئے تاکہ مراسم کی بحالی میں تیزی آئے۔

تازہ ترین