• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پروفیسر دلاور حسین جسمانی طور پر لحیم شحیم تھے۔ وہ کالج سائیکل پر آتے تھےاور رستے میںجب کسی تانگے یا ریڑھے پر ان کا ہاتھ پڑ جاتا وہ پیڈل مارنا چھوڑ دیتے تھے اورجب تانگے یا ریڑھے کا ساتھ چھوٹنے لگتا، فوراً پیڈل چلانا شروع کردیتے۔ سردیوں میں ہم طالب علم دھوپ سینکنےکیلئے کالج کے باہر گیٹ کے قریب ہوتے، ہمارے کالج کے عین سامنے لڑکیوں کا کالج لیڈی میکلیگن تھا، کچھ راویوں کا کہنا ہے کہ ہم باہر دھوپ سینکنے کیلئے نہیں کھڑے ہوتے، دلاور صاحب جب ہمارے قریب پہنچتے تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ، شفقت اور محبت چھپائے نہ چھپتی، چنانچہ ہم بھاگ کر کالج میں داخل نہ ہوتے بلکہ اپنی جگہ پر کھڑے نظریں سامنے جمائے دھوپ سینکتے رہتے، اس دوران دلاور صاحب سائیکل سے اترتے اور ہمارے قریب آتے ہی ان کے چہرے سے مسکراہٹ، شفقت اور محبت کی جگہ غیظ و غضب نمایاں ہو جاتا اور لڑکے جو ان کا محبت بھرا چہرے دیکھ کر اپنے محاذ پر ڈٹے ہوتے تھے ان سب کی کلاس اور رول نمبر پاس ہی کھڑے ایک ٹیچر سے نوٹ کرواتے۔ ان کے بارے میں ایک روایت مشہور ہے کہ سامنے والے گرلز کالج کی پرنسپل ہمارے بارے میں شکایت لے کر آئیں اور کہا آپ کے لڑکے ہماری لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں، دلاور صاحب نے ان کے لئے چائے منگوائی اور کہا آپ چائے پئیں میں جواب دیتا، جب انہوں نے چائے ختم کی تواپنی شکایت دہرائی، دلاور صاحب نے کہا میں ایک ضروری کام کر رہا ہوں، بس دس منٹ پھر آپ سے بات کرتا ہوں، اس طرح جب آدھا گھنٹہ گزر گیا تو پرنسپل صاحبہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور باہر جانے لگیں تو دلاور صاحب نے اپنی کہنیاں میز پر ٹکائیں اور کہا محترمہ آپ اس اکیلے کمرے میں آدھ گھنٹے سے میرے پاس بیٹھی ہیں میں نے آپ کو چھیڑا؟ اور میرے لڑکے تو ایسےہیں ہی نہیں۔

آپ ذرا غلط بخشیاں ملاحظہ فرمائیں ۔مجھے مجلس سخنور اردو کا سیکرٹری، اسلامک سوسائٹی کا سیکرٹری اور کالج میگزین شفق کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ لڑکے مجلس نمودِ اردو کو مجلس نمرودِ اردو کہتے تھے۔ میرے اتنے سارے ٹیلنٹ دریافت کرنے والوں کو اللہ معاف کرے۔ بہرحال اسلامک سوسائٹی کا سیکرٹری ہونےکے ناتےمیں نے علامہ علائوالدین صدیقی کو اپنے کالج مدعو کیا ، بعد میں علامہ صاحب پنجاب یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ علامہ صاحب کی آمادگی کے بعد میں دلاور صاحب کے پاس گیا اور ان سے عرض کی کہ سر اس تقریب کیلئے ڈیڑھ سو روپے کی منظوری عطا فرما دیں تاکہ تقریب کے اختتام پر حاضرین کو چائے پلائی جاسکے۔ دلاور صاحب نے بڑے تحمل سے میری عرض داشت سنی اور پھر فرمایا ’’برخوردار، اکٹھے ڈیڑھ سو روپے؟یہ تم ڈیڑھ روپیہ رکھو، لاہور چھائونی کے قریب راحت بیکری ہے، یہ ڈیڑھ روپے میں تمہیں چھ پیسٹریاں دیں گے وہ لے آئو جب تقریب کا اختتام ہو یہ چھ کی چھ پیسٹریاں تم میرے سامنے رکھ دینا، میں علامہ صاحب سے کہوں گا علامہ صاحب پیسٹری لیں وہ تکلف کرتے ہوئے کہیں گے نہیں شکریہ، میں کہوں گا علامہ صاحب ایک تو کھا لیں، وہ ایک کھا لیں گے، پروفیسروں میں سے کوئی میرے سامنے دوسری پیسٹری کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائے گا، باقی پانچ بچ جائیں گی، وہ برخوردار تم کھا لینا۔ یہ لو ڈیڑھ روپیہ اور تیزپیڈل مارتے ہوئے بیکری پہنچو، اور ہاں اسے میرا حوالہ دینا نہ بھولنا۔

دلاور صاحب کے بارے میں ایک بات بتانا بھول گیا وہ صرف انگریزی یا پنجابی میں بات کرتے تھے اور ہاں دلاور صاحب کا تذکرہ ایسے ہی ختم ہونے والا نہیں، وہ اس طرح کہ مجلس نمود اردو کے زیر اہتمام ایک عالیشان مشاعرے کے اہتمام کا سوچا، میں نے دلاور صاحب سے بات کی وہ بہت خوش ہوئےکہ مشاعرے کی اجازت کے ساتھ میں نے ان سے ’’گرانٹ‘‘ نہیں مانگی تھی، اس کا انتظام میں نے ماڈل ٹائون میں مقیم ایک خوش ذوق ’’پیر موتیاں والا‘‘ کے ذریعے کرلیا تھا، پیر صاحب کا اصل نام پتہ نہیں کیا تھا مگر وہ پیر موتیاں والا ہی کے نام سے مشہور تھے۔ میں بہت ایکسائٹڈ تھا ،میں نے لاہور میں مقیم صف اول کے شعرا حفیظ، فیض، ندیم، منیر، قتیل، ظہیر سب سے رابطہ کیا اور ان کے سامنے جھولی پھیلا کر عرض کی کہ ایم اے او کالج امرتسر کی علمی ادبی سرگرمیوں کا بہت چرچا تھا آپ خودبھی اس سے واقف ہیںاس کی یہ شہرت بحال کرنے کیلئے ہم نے فلاں تاریخ کو کالج میں مشاعرے کا اہتمام کیا ہے آپ پلیز اس میں شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں، میری لجاجت اور ظرافت نے کام دکھایا اور ان سب نے شرکت کی ہامی بھر لی، میں نے اس مشاعرے کے بڑے سائز کے پوسٹر چھپوائے اس کے بعد سائیکل کے ہینڈل میں ’’لیوی‘‘ کی بالٹی لٹکائی اور شہر بھرکے نمایاں مقامات پر پوسٹرلگائے، اس کے علاوہ لاہور کے مختلف علاقوں میں رہنے والے اپنے کلاس فیلوز کو بھی یہ پوسٹر دیئے نتیجہ یہ کہ ایک جم غفیر جمع ہونا شروع ہوگیا، اس سے پہلے میں دلاور صاحب کے پاس گیا اور ان سے کالج کا لائوڈسپیکر استعمال کرنے کی اجازت مانگی، انہوں نے پوچھا برخوردار کس لئے؟ میں نے کہا سرمشاعرے کے لئے، بولے کس مشاعرے کےلئے، میں نے کہا سر کالج میں ہونے والے مشاعرے کے لئے، پوچھا برخوردار کس کالج کے، میں نے عرض کی ایم اے او کالج، غصے سے کہا کون سا ایم اے او کالج اور اس کے ساتھ ہی اپنی نشست سے اٹھے اور کہا یہ مشاعرہ ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ سن کر میں گھبرا گیا، باہر نکلا تو ہزاروں کی تعداد میں مشاعرے کے دلدادہ کھڑے تھے، اللہ کا شکر ہے کہ میں نے کسی انجانے خوف کی وجہ سے کالج کا مین گیٹ لاک کردیا، لوگ اندر آنے کی کوشش کرتے مگر کیسے آ سکتے تھے، ایک موقع پر جب میں نے محسوس کیا کہ اگلے چند منٹوں میں ایک بڑا ہنگامہ برپا ہونے والا ہے، میں نے ایک دوست کو گھوڑی بنایا اور اس پر پائوں رکھ کر دیوار پر چڑھ گیا یہ بہت خطرناک لمحہ تھا کہ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور سخت دکھ اور غم کے لہجے میں مجمع کوبتایا کہ کالج کے پرنسپل پروفیسر دلاور حسین قضائے الٰہی سے انتقال کرگئے ہیں چنانچہ ان کے سوگ میں آج کا مشاعرہ کینسل کردیا گیا ہے، حاضرین بہت غمگین حالت میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین