• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں تو مشاعرے کے تمنائی ہجوم کو کالج کے پرنسپل دلاور حسین کے انتقالِ پُرملال کی خبر سنا کر انہیں تتر بتر کرنے میں کامیاب ہوگیا، مگر اگلے روز دلاور صاحب نے مجھے اپنے آفس میں طلب کرلیا۔ میں مجرموں کی طرح ان کے سامنے تھا۔ انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا ’’تمہیں میرے انتقال کی جھوٹی خبر پھیلا کر بہت خوشی ہوئی؟‘‘میں نے کہا ’’نہیں سر، لیکن اگر میں آپ کے انتقال کی جھوٹی خبر مجمع کو نہ سناتا تو آج میرے انتقال کی سچی خبر اخبار میں شائع ہوئی ہوتی‘‘۔ اس پر دلاور صاحب نے بہت پرسکون لہجے میں کہا ’’میں تمہارے کالج میں دو سال تک نہ آنے کی پابندی لگا رہا ہوں‘‘یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے، نوٹس بورڈ پر پرنسپل کا یہ حکم بھی نوٹس کی صورت میں چسپاں کردیاگیا۔


میری پریشانی دیکھ کر ایک دوست نے مشورہ دیا کہ تم تین چار دن بعد ان کی خدمت میں حاضر ہونا، معافی مانگنا، وہ بہت رحم دل ہیں تمہیں معاف کردیں گے۔ سو میں نے ڈرتے ڈرتے ان کے آفس میں قدم رکھا اور لڑکھڑاتی زبا ن میں گویا ہوا ’’سر مجھ سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے،پلیز مجھے معاف کردیں‘‘ یہ سن کر انہوں نے کہا ’’تھانہ انارکلی کے ایس ایچ او سے سفارش کروا سکتے ہو، میں نے عرض کی سر میں انہیں نہیں جانتا‘‘ اے ایس آئی کو تو جانتے ہوگے، اس سے کہلوا دو۔ میں نے وہی پہلا والا جملہ دہرایا ’’نہیں سر، میں اسے بھی نہیں جانتا‘‘ بولے چلو حوالدار کی سفارش لے آئو، میرا وہی پرانا جواب تھا۔ اس پر دلاور صاحب نے آفر دی کہ تھانے کے کسی کانسٹیبل ہی سے سفارش کروا لو، میں نے عرض کی سر میں ان میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا۔ اس پر فرمایا ’’برخوردار جیسی تمہاری حرکتیں ہیں سارا تھانہ تمہارا واقف ہونا چاہیے۔بالآخر انہوں نے آخری پیشکش کی ’’دفتر کے باہر اسٹول پر معراج دین بیٹھا ہے اس کی سفارش تو کروا سکتے ہو‘‘۔یہ سن کر میرے دل کی کلی کھل اٹھی۔ میں نے فوراً کہا ’’جی سر‘‘ اور اس کے ساتھ ہی باہر آگیا جہاں اسٹول پر نائب قاصد معراج دین بیٹھا تھا، میں نے کہا یار معراج دین میرے ساتھ اندر چلو اور مجھے ان سے معافی دلا دو۔ وہ پریشان ہوگیا اور کہنے لگا سر میری کیا مجال ہے اور وہ میری کہاں سنیں گے۔میں نے کہا بس تم میرے ساتھ چلو۔ وہ ڈرتے ڈرتے پرنسپل صاحب کے کمرے میں داخل ہوگیامگرچپ چاپ کھڑا ہوگیا، اس کی زبان اس سفارش کا ساتھ نہیں دے رہی تھی، جب اس کی خاموش کو ایک منٹ ہوگیا تو میں نے زور سے اس کی وکھی (پسلی) میں اپنی کہنی ماری جس پر روبوٹ کی طرح اس کی آوازسنائی دی ’’سر انہیں معاف کردیں‘‘۔ یہ سن کر دلاور صاحب نے معراج دین کو مخاطب کیا اور کہا ’’اچھا معراج دین اگر تم کہتے ہو تو معاف کردیتا ہوں‘‘۔ کیسے عظیم انسان تھے میرے پرنسپل دلاور حسین۔ اس واقعہ کے بہت عرصہ بعد پتہ چلا کہ چونکہ کالج انجمن اسلامیہ کے زیر انتظام تھا، انہیںجب شعرا کے ناموں کا پتہ چلا تو وہ غصے میں آگئے کہ سارے ’’کیمونسٹ‘‘ شاعر اس اسلامی کالج میں آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے یقیناً دلاور صاحب کو پیغام دیا گیا کہ یہ مشاعرہ نہیں ہونا چاہیے۔ سو ایسا ہی ہوا تاہم دلاور صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے میرا تعلیمی کیریئر تباہ ہونے سے بچا لیا۔

طالب علمی کے زمانے میں ، میں نے جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ان میں پروفیسر ایس اے حامد بھی تھے جو ہمیں وہی تاریخ پڑھاتے تھےجو سچ سمجھ کر آج بھی کالجوں میں پڑھائی جاتی ہے، وہ بہت اسمارٹ ملنگ تھے، بہترین لباس پہنتے ، سنا ہےکہ وہ ایلیٹ کلاس کی بہت مقبول شخصیت تھے، جملے بازی اور خوش مزاجی ان کی پہچان تھی۔ لیکن کالج میں وہ کسی اور رویہ میں نظر آتے تھے۔ پتہ نہیں کیوں، مجھے اکثر کلاس میں مخاطب کرکے کہتے ’’تم گجر تو نہیں ہو‘‘۔ کاش اس زمانے میں گجروں کی مدح میں گائے گئے گانے اور ان پر بنائی گئی فلموں کا وجود ہوتا تو میں کھڑے ہو کر کہتا ’’ہاں میں گجر ہوں، کرلو جو کرنا ہے‘‘۔ (جاری ہے)

تازہ ترین