ملکی معیشت کے حوالے سے حکومت کے بلند بانگ دعوے خواہ کچھ بھی ہوں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عوام مسلسل تنگ دستی اور معاشی تنزلی کا شکار ہیں۔ مدتوں سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مہنگائی کم ہو کر سنگل ڈیجٹ میں آگئی ہے یہ بات کانوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن حقیقت کی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور یہ صرف حکومتی اعداد و شمار کے ہندسوں تک ہی محدود ہے ورنہ ہر آنے والے دن عوام کی قوت خریدان کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ روز معیشت کی بہتری کی خوشخبریاں ضروردی ہیں لیکن انہوں نے بھی اپنے دامن کو بچاتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ میری باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ ملک کیلئے ترقی اور خوشحالی کے راستے کھل گئے ہیں ،ایسا صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری ہو گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اپیکس کمیٹی اجلاس میں اس بات کا اعادہ بالخصوص کیا کہ ملک کی معیشت رفتہ رفتہ استحکام کی جانب گامزن ہے، اس کا کریڈٹ انہوں نے وفاق اور صوبوں سمیت سب ہی کی جھولی میں ڈالتے ہوئے کہا کہ ملکی ترقی اور خوشحالی سب سے اہم پہلو ہے، معاشی اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ انہوں نے قوم کو ایک بار پھر نوید دی کہ حالیہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگرام ہو گا لیکن یہ کہنے سے نہیں بلکہ محنت دیانت اور خون پسینہ بہانے سے ہی ممکن ہو گا۔ پاکستان میں معاشی استحکام کیلئے پہلے سیاسی استحکام لازمی ہے آج بھی حکومت اور اس کے ماسٹر مائنڈ اس کام میں ناکام ہیں جس کے سبب دیگر امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جہاں سیاسی استحکام نہ ہو وہاں کوئی ملکی یا بیرونی سرمایہ دار کیوں اپنے سرمائے کو دائو پر لگائے گا۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوئوں کے باوجود اس وقت بھی مہنگائی عروج پر ہے، بیروزگاری کا گراف بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے سرکاری ملازمتوں کی خرید و فروخت اور کوٹہ سسٹم کے حمایتیوں نے ملک کی تعمیر و ترقی کی راہ میں ایسی فصیلیں کھڑی کر رکھی ہیں جنہیں گرانا قانون سازوں کے بھی بس کی بات نہیں۔ وزیر خزانہ کا فرمان ہے کہ ان کی حکومت کی کارکردگی پر آئی ایم ایف بھی حیران ہے کہ 14ماہ میں معیشت کیسے سنبھل گئی، حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آ گئی، معیشت کی بہتری کیلئے مقررہ اہداف حاصل کریں گے اور تمام شعبوں میں اصلاحات جاری رکھی جائیں گی لیکن پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ کس طرح نجکاری کی آڑ میں قومی اثاثوں کی نیلامی ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں، وزیر اعظم کی طرح وزیر خزانہ کا بھی یہی کہنا تھا کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی کارکردگی کے معترف ہیںجن کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ان اداروں کا اعتماد حکومت پر کیوں نہ بڑھے کہ حکومت ان کے ہی مشوروں پر تو عوام کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کرکے معیشت کی کامیابی کے جھنڈے لہرا رہی ہے۔ علاوہ ازیں، بہت سے دوست ممالک پاکستان کی قرض کے ذریعے بھی مدد کر رہے ہیں اور سرمایہ کاری کیلئے بھی یقین دہانیاں کرا چکے ہیں۔ اس سب کے باوجود عام آدمی کے مسائل کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے اور حکومت کی جانب سے ایسے کوئی اقدامات بھی دکھائی نہیں دے رہے جن کے زیر اثر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی واقع ہو۔ ایک دو بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی جاتی ہیں تو اس سے اگلی مرتبہ میڈیا کے ذریعے عوام کو یہ بتانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف لیوی بڑھانے اور جی ایس ٹی لگانے کیلئے دبائو ڈال رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا سارا دبائو عام آدمی کو نچوڑنے پر ہی کیوں ہے؟ کیا آئی ایم ایف نے اشرافیہ اور بیورو کریسی کو سرکاری خزانے سے ملنے والی مراعات و سہولیات کا ذکر کبھی نہیں کیا؟۔
دوسری جانب حماس سے جنگ میں دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور ہونے کی دعویدار اسرائیلی فوج نے وزیر اعظم نیتن یاہو سے جنگ بند کرنے کی درخواست کی ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس اور سیکورٹی چیفس نے وزیراعظم نیتن یاہو کو بریفنگ میں بتایا کہ حماس کے پاس موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی حالت نازک ہے اور ان کی رہائی کیلئے اب جنگ بندی کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اسرائیلی جنرلز نے بتایا کہ بیش تر یرغمالیوں کا وزن خوراک کی کمی کے سبب آدھا رہ گیا، ایسی صورت میں موسم سرما یرغمالیوں کی زندگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اسرائیلی جنرلز بزدلی کا اعتراف تو کر نہیں سکتے تھے اس لیے یرغمالیوں کا سہارا لیا، لیکن انہوں نے یرغمالیوں کا وزن بھی معلوم کر کے بتادیا کہ وہ آدھا رہ گیا ہے، یہ خوب بات کی ہے۔ اوّل تو جتنے یرغمالی رہا ہوئے ہیں سب نے بتایا ہے کہ حماس کے مجاہدین نے خود نہیں کھایا ہمیں اچھا کھلایا ہے اور یہ تجربہ امریکی اور روسی بھی افغانستان میں کرچکے ہیں، ان کو معلوم بھی ہے کہ مسلمانوں کے جنگی اصول ہوتے ہیں وہ اسرائیل کی طرح غیر انسانی طریقے سے جنگ نہیں لڑتے۔ اور یہ کہ اگر خوراک کی کمی ہے تو اس کا ذمے دار بھی نیتن یاہو ہی ہے۔ امداد کے راستے تو اسی نے روک رکھے ہیں، دوائیں اسی نے بند کررکھی ہیں، اسپتالوں پر وہی بمباری کررہا ہے سویلین کو بھی وہی نشانہ بنارہا ہے، یہ مطالبہ تو طاقتور فوج کا اعتراف شکست ہے۔