( گزشتہ سے پیوستہ)
’’میری کہانی‘‘ سلسلہ شروع کرتے ہوئے مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ مجھے پرپیچ گلیوں سے گزرنا پڑےگا، میں ایک گلی میں داخل ہوں گا اور اسے عبور کرنے سے پہلے ایک اور گلی آ جائے گی جس کی ابھی باری نہیں آئی تھی۔ مجھے ماڈل ٹائون میں خوبصورت اور ایک بالکل مختلف بستی کا ذکر کرنا تھا ، یہاں میں نے اپنے بہت پیارے دوستوں کے ساتھ زندگی کے پچیس سال گزارے تھے مگر میں صرف وہاں کے اسکول کا ذکر کرکے ایم اے او کالج میں بطور طالب علم گزرے ہوئے دنوں کی کہانی درمیان میں لے آیا۔
یہ سب خلا پر کرکے میں اس سلسلے کا اختتام کروں گا اور وہ کہانی سنائوں گا جس میں میں طالب علم سے اس کالج میں لیکچرر کے طور پر بھرتی ہوگیا۔ ہوا یوں کہ میں اس وقت کے پرنسپل اور ممتاز شخصیت کرامت حسین جعفری صاحب کا انٹرویو کرنے انکی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میرا نام سنتے ہی پوچھا مولانا بہاء الحق قاسمی آپ کے رشتے دار ہیں۔ میں نے عرض کی وہ میرے والد ہیں۔ یہ سن کر وہ اپنی نشست سے اٹھے اور مجھے گلے لگا کر کہا ایم اے او کالج امرتسر میں وہ میرے کولیگ تھے، تم تو میرے بھتیجے ہوئے۔ اس کے بعد ان سے چند سوال و جواب ہوئے، پھر گفتگو درمیان ہی میں چھوڑ کر بولے ’’تم اس کالج میں بطور لیکچرر کیوں نہیں آ جاتے‘‘۔ میں نے تہہ دل سے ان کا شکریہ ادا کیا اور عرض کی کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ امریکہ جا رہا ہوں، پوچھا واپسی کب ہے؟ میں نے کہا سر پتہ نہیں، بولے تم جب بھی پاکستان واپس آئو بطور اردو کے لیکچرر تمہاری سیٹ تمہارے لئے خالی رہے گی۔ اس وقت تعلیمی ادارے نیشنلائزڈ نہیں ہوئے تھے ، چنانچہ نہ اسامیاں انائونس ہوتی تھیں نہ انٹرویوز ہوتے تھے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا تو بطور لیکچرر میری اپائٹمنٹ ناممکن تھی کیونکہ ایف اے میں فیل ہونے کے علاوہ ایم اے بھی میں نے دو بار کوششوں کے بعد پاس کیا تھا۔ آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ ڈیڑھ دو سال بعد میں جب امریکہ سے واپس آ کر جعفری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا صبح جوائننگ لے لو، تمہاری سیٹ خالی پڑی ہے۔ میں جب ماڈل ٹائون کے قبرستان میں ابا جی اور امی جی کی قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے جاتا ہوں تو جعفری صاحب کی قبر کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کیلئے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔اب آپ پوچھیں گے کہ سفید پوشی کے عالم میں میں نے امریکہ تک کے اخراجات کیسے برداشت کئے؟ صرف چند لائنوں میں بتائونگا کہ پندرہ سو روپے میں اپنا منی موٹر سائیکل بیچا اور کچھ پیسے ابا جی اور بھائی جان سے لئے۔ یہ کل چھ ہزار روپے بنے اس زمانے کے ڈالر ریٹ کے مطابق ایک سو ڈالر۔ میں نے یورپ تک کا سفر بسوں میں اور لفٹ لے کر طے کیا۔ آئس لینڈ سے سب سے سستی فلائٹ نیو یارک کیلئے اور جہاز کے حالات کے باوجود نیو یارک پہنچ گیا، واپسی کاسفر بھی اس طرح طے کیا، وہاں جو پیسے کمائے تھے وہ امریکہ کی سیاحت پر صرف کر دیئے چنانچہ واپسی پر میری جیب میں صرف پانچ سو روپے تھے۔ یہ قصہ میں یہی ختم کر رہا ہوں۔ امریکہ سے واپسی کی تفصیلی داستان سے اگر آپ کو دلچسپی ہو تو میری کتاب ’’شوق آوارگی‘‘ کسی سے ادھار مانگیں اور پھر واپس نہ کریں۔ اب یہاں سے میری کہانی کا ایک دلچسپ موڑ آ رہا ہے۔ وہاں میری دوستی ایک لیکچرر سےہوئی ہم دونوں جب کالے گائون
پہنے کلاس سے نکلتے تو ہم دونوں کا ٹاکرہ ہوتا۔ یہ انگریزی کے استاد تھے مگر میرامنؔ کے زمانے سے بھی بہت پہلے کی اردو میں مجھ سے بات کرتے، خود سنجیدہ ہوتے اور مجھے اپنی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو جاتا۔ ان کے بارے میں پتہ چلا کہ پرانی انار کلی میں ایک کرائے کا مکان لیا ہوا ہے جس کے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے ہوتے ہیں، ان کے کولیگ ان کی عدم موجودگی میں بھی وہاں جاتے اور فریج میں جوہوتا کھا کر آرام کرنے کیلئے لیٹ جاتے، کئی کولیگ اپنےساتھ کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لاتے اور فریج بھر دیتے۔ اسی وجہ سے کالج کے اساتذہ نے انہیں جوگی کا نام دیا ہوا تھا۔ انہی دنوں ایک نئے پرنسپل کالج میں تشریف لائے اور انہوں نے پہلی اسٹاف میٹنگ میں اعلان کیا کہ صرف سٹاف میٹنگ کے دوران سگریٹ نوشی کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ پورے کالج میں اس اصول پر سختی سے عمل کرایا جائیگا۔ پرنسپل صاحب جب اسٹاف میٹنگ میں یہ اعلان کر رہے تھے اس وقت جوگی کا ہاتھ اسکی جیب میں گیا اور سگریٹ ماچس نکال کر لمبے لمبے سوٹے لگانے لگے۔ کچھ عرصے بعد جوگی نے کالج سے استعفیٰ دیدیا اور گوجرہ میں برتنوں کی دکان کھول لی۔ میرے اس دوست کا نام پروفیسر رفیق اختر تھا اور اس وقت لاکھوں انکے مرید ہیں جن میں فوج کے جرنیل بھی شامل ہیں۔ ایک دفعہ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے بھیرہ اسٹاپ پر ہماری ملاقات ہوئی اور یہ بھول کر کہ رفیق اختر اب لاکھوں دلوں پر راج کرتا ہے ہم اس بے تکلفی سے ملے جس بے تکلفی سے کالج میں ملتے تھے۔اب اس سلسلے کے ایک اور کردار سے ملاقات کریں، میری ان سے دو تین ملاقاتیں صدر شعبہ اردو پروفیسر طفیل دارا کے کمرے میں دارا صاحب کی عدم موجودگی میں ہوئیں، وہ خاموش طبع تھے، میں انکے برعکس خاموشی کیا سنجیدگی بھی اختیار نہیں کرسکتا تھا۔ پتہ چلا وہ شاعر ہیں اور ایک پرائیویٹ اسکول میں انگریزی پڑھاتے ہیں، میں انہیں بھول بھا ل گیا، ایک دن اشفاق احمد کا فون آیا کہ کل شام تم نے کھانا میرے ساتھ کھانا ہے، میں انکے گھر پہنچا تو لاہور کا کوئی بڑا ادیب ایسا نہیں تھا جو وہاں موجود نہ ہو۔ اس دوران اشفاق صاحب نے اعلان کیا کہ میں نے آج آپ کو ایک بڑی شخصیت سے ملاقات کیلئے زحمت دی ہے۔ پھر انہوں نے واصف علی واصف صاحب سے درخواست کی کہ وہ آگے آ کر بیٹھ جائیں، وہ جب آگے آئے تو میں حیران رہ گیا کہ یہ وہی صاحب تھے جو طفیل دارا کے کمرے میں خاموشی سے بیٹھے ہوتے تھے، اسکے بعد انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا، اسے صرف ساحرانہ گفتگو ہی کہا جاسکتا تھا۔ انتہائی تخلیقی انداز میں تصوف پر بات کر رہے تھے مگر ان کی گفتگو الجھی ہوئی نہیں تھی جن کو تصوف سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ بھی انگشت بدنداں تھے۔میں نے اتنی تخلیقی گفتگو کے سبب مجید نظامی صاحب سے اجازت لے کر ان کاکالم شروع کرا دیا، مگر وہ ہر کالم کے آخر میں ’’برائے رابطہ‘‘ لکھ کر آگے اپنا ٹیلی فون نمبر درج کر دیتے جو ڈیوٹی پر بیٹھا ایڈیٹر کاٹ دیتا تھا۔ واصف صاحب نے مجھ سے شکایت کی، میں نے عرض کی واصف صاحب یہ بات ذاتی پبلسٹی کے ضمن میں آتی ہے اسلئے ایڈیٹر کاٹ دیتا ہے۔ فرمایا میرا مقصد اپنی پبلسٹی نہیں زیادہ سے زیادہ خلق خدا کو یہ سہولت دینا ہے کہ وہ فون پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں ۔ پھر ان سے تعلقات بڑھتے گئے ایک موقع پر انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں میرے جملے استعمال کرتے ہیں، مگر میرا حوالہ نہیں دیتے۔ دوسری شکایت ممتاز مفتی کے حوالے سے کی کہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں مجھے اپنا خلیفہ نامزد کیا تھا مگر ممتاز مفتی نے وہ لائن کاٹ دی۔
ان دنوں لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب میں ان کا سالانہ عرس ہوتا ہے جس کی خاصی پبلسٹی کی جاتی ہے، اللّٰہ ان کی مغفرت کرے۔