لندن (پی اے) موت میں معاونت کے بل کے خلاف عیسائی، مسلمان، یہودی، ہندو اور سکھوں کے مذہبی رہنما یکجا ہوگئے۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس بل کے بعد کمزور اور بے سہارا لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ انھیں اب مر جانا چاہئے۔ دی آبزرور میں شائع ہونے والے ایک خط میں 29 مذہبی رہنماؤں نے دستخط کئے ہیں، جن بشپ آف لندن، چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ بشپ برائے صحت اور سماجی دیکھ بھال، ویسٹ منسٹر کے رومن کیتھولک کارڈینل آرچ بشپ اور چیف ربی شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے خط میں دلیل دی ہے کہ زندگی کے اختتام پر ہمدردانہ ردعمل سکون آور دیکھ بھال میں سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ برادریوں میں مذہبی رہنماؤں کے فرائض کا ایک حصہ بیماروں اور مرنے والوں کے لئے روحانی معاونت فراہم کرنا ہے۔ ہم اپنے پیاروں کے آخری دنوں میں ان کا ہاتھ پکڑتے ہیں، ہم مرنے سے پہلے اور بعد میں اہل خانہ کے ساتھ دعا کرتے ہیں۔ ہمارا روحانی کردار ہمیں اس بِل کے سب سے زیادہ کمزور افراد پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا کرتا ہے، جو زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے استحصال اور دباؤ کے امکانات کو کھولتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ، چاہے وہ مذہب رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، ہمارے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ چاہے کسی کے اردگرد محبت کرنے والے خاندان اور دوست موجود ہوں، زندگی کے اختتام کے قریب پہنچنے والے لوگ پھر بھی یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ دوسروں پر بوجھ ہیں اور یہ خاص طور پر اُس وقت زیادہ ہوتا ہے جب بالغوں کی سماجی دیکھ بھال کے لئے فنڈز ناکافی ہوں۔ انہوں نےلکھا ہے کہ ایسے ماحول میں یہ آسان ہے کہ مرنے کے حق کا تصور اس بات کے احساس میں بدل جائے کہ آپ پر مرنے کی ذمہ داری عائد ہے۔ اپنے خط کے اختتام میں اس گروپ نے ان تمام افراد کے لئے اعلیٰ معیار کی پالی ایٹو (درد کم کرنے والی) دیکھ بھال کی خدمات کی فراہمی پر زور دیا، جنہیں اس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پالی ایٹو کیئر کے لئے فنڈنگ اب بھی تشویشناک حد تک ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ زندگی کے اختتام کے لئے واقعی ہمدردانہ ردعمل اعلیٰ معیار کی پالی ایٹو کیئر کی خدمات کی فراہمی میں ہے۔ اگرچہ اس ملک میں اعلیٰ معیار کی پالی ایٹو کیئر کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن اس کے لئے فنڈنگ اب بھی تشویشناک حد تک ناکافی ہے۔ پالی ایٹو کیئر میں سرمایہ کاری ایک واقعی ہمدرد قوم کی پالیسی ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کا طریقہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد، بشمول سب سے زیادہ کمزور افراد کو زندگی کے اختتام پر وہ دیکھ بھال ملے، جس کے وہ مستحق ہیں۔ ایم پیز جمعہ کے روز کامنز میں ٹرمینلی اِل ایڈلٹس (اینڈ آف لائف) بل پر بحث کریں گے۔ یہ بل لیبر ایم پی کم لیڈ بیٹر نے پیش کیا ہے، جنہوں نے قانون سازی کے حوالے سے "سلپری سلوپ" کے خدشات کو کم اہم قرار دیا ہے۔ اسکائی نیوز کے "سنڈے مارننگ پروگرام میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سلپری سلوپ (لغزش کے خطرے) کے تصور کے حوالے سے بل کا عنوان بہت واضح ہے۔ یہ ناقابل علاج بیماری میں مبتلا بالغ افراد کے لئے زندگی کے اختتام کا بل کہلاتا ہے۔ اس میں سوائے ان افراد کے، جو ناقابل علاج بیماری میں مبتلا ہیں اور جن کی زندگی کے چند مہینے باقی ہیں، کسی اور کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں بالکل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ یہ بل ان افراد کے علاوہ کسی اور کو کور نہیں کرے گا، جو اس زمرے میں آتے ہیں۔ مس لیڈ بیٹر نے کہا کہ انہیں اس حوالے سے "ذرا بھی شک نہیں، اگر ایسا ہوتا تو میں یہ بل پیش نہ کرتی۔ میں بالکل واضح ہوں کہ ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں، جنہیں موجودہ قانون ناکام کر رہا ہے۔ ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں جو اپنی جان لے رہے ہیں۔ ہمارے پاس خاندان ہیں، جو انتہائی دل دہلا دینے والے حالات میں اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں اور ایسے لوگ ہیں جو بہت تکلیف دہ موت مر رہے ہیں، یہ ایک بالکل واضح مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک قانونی فریم ورک بنا کر ہم صورتحال کو بہتر کریں گے۔