گریٹر مانچسٹر کی ڈائری… ابرار حسین پاکستان کے حکام نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی ہڑتال کی کال کے جواب میں ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کو بلاک کرنے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ ہڑتال، ایک بے مثال کریک ڈاؤن کا باعث بنی ہے، جس میں مبینہ طور پر ملک بھر میں پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں اور رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ملک پر چھائے ہوے مایوسیوں کے بادل اور سیاسی عدم استحکام کی بڑھتی ہوئی صورتحال نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت ملکی اور بین الاقوامی مبصرین کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کو سیل کرنے کے حکومتی فیصلے کو بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ممکنہ طور پر دارالحکومت کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ پولیس کی رکاوٹوں، روڈ بلاکس اور چوکیوں نے ایک ورچوئل لاک ڈاؤن بنا دیا ہے، جس سے رہائشیوں اور کاروبار کرنے والوں کی روزمرہ کی زندگی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت نے پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے، رات گئے چھاپے مارے اور پارٹی کی اہم شخصیات کو گرفتار کر لیا۔ سیاسی تناؤ میں اضافہ ہونے کے باعث اس بحران کی جڑیں بظاہر پارلیمانی عدم اعتماد (جبکہ درحقیقت ملک پر حاوی اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات) کے ووٹ کے ذریعے اپریل 2022میں عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد بڑھتے ہوئے سیاسی پولرائزیشن سے ہے اس کے بعد عمران خان نے حکمران اتحاد پر بدعنوانی اور غیر ملکی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے اپنے حامیوں کو اکٹھا کرنا جاری رکھا ہوا ہے ان کی ملک گیر ہڑتال کی کال بگڑتے ہوئے معاشی حالات، بڑھتے ہوئے عوامی عدم اطمینان اور قانونی لڑائیوں کے سلسلے کے درمیان آئی ہے جس نے پی ٹی آئی کو سیاسی عمل سے مزید باہر کر دیا ہے۔ تاہم عوام میں ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے احتجاج سے پہلے پی ٹی آئی نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ اس کے خلاف ثابت قدم رہیں جسے انہوں نے "ریاستی اسپانسرڈ جبر" قرار دیا۔ انہوں نے حکومتی اقدامات کو جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق پر حملہ قرار دیا ہے عمران خان کا کہنا ہے کہ "یہ میرے بارے میں نہیں ہے، یہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہے،" بڑے پیمانے پر گرفتاریوں نے غم و غصے کو جنم دیا۔ جیسے ہی پی ٹی آئی کے حامی متحرک ہونے لگے، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے مناسب عمل کی خلاف ورزی اوروفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے مظاہرین پر ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ان کی جانب سے یہ کہنا کہ جو بھی اسلام آباد کی طرف آئے گا اسے واپس نہیں جانے دیا جاے گا جس سے تلخی میں مذید اضافہ ہوا ایسی زبان کا استعمال تو صرف دشمنوں کہلیے کیا جاتا ہے اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی ترجمانوں کے مطابق سابق وزراء سمیت ہزاروں کارکنوں اور کئی سینئر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ تاہم حکومت کا موقف ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے گرفتاریاں ضروری ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا ہےکہ ہم مٹھی بھر لوگوں کو دارالحکومت کا امن خراب کرنے یا ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ حالانکہ اسلام آباد کو بلاک کرنے کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بوکھلا چکی ہے جس سے وہ طاقت کا بے تحاشا استعمال کر رہی ہے۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ حکومت کے رویے سے آبادی کے ایک اہم حصے کو مزید الگ کرنے کا خطرہ ہے۔ ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "یہ گورننس نہیں ہے؛ یہ جبر ہے۔" "حکومت ایسی صورتحال پیدا کر رہی ہے جہاں بات چیت ناممکن نظر آتی ہے۔" اسلام آباد کی ناکہ بندی کے باعث بڑے پیمانے پر لوگوں کو پریشانی ہو رہی ہے۔ اسکول اور دفاتر بند ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہے اور کاروبار کو نقصان ہو رہا ہے۔ رہائشیوں نے عدم تحفظ کے شدید احساس کی اطلاع دی ہے۔G-10 سیکٹر کے رہائشی ندیم احمد نے کہا ہےکہ "ہم محاصرے کی حالت میں رہ رہے ہیں۔" "حکام کو عام آدمی کو تکلیف میں ڈالے بغیر سیاسی شکایات کو دور کرنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ بحران پاکستان کے تارکین وطن میں بھی گونج اٹھا ہے، خاص طور پر برطانیہ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ جیسے ممالک میں بازگشت ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی، جو ترسیلات زر کے ذریعے قومی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر گرفتاریوں اور جمہوری اصولوں کی پامالی کی مذمت کی ہے۔ ادھر نارتھ ویسٹ کے بے شمار پاکستانی باشندوں نے کہا ہے کہ اختلافات کو دبانا ناقابل قبول ہے۔ ہم پاکستان میں اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں اور اوورسیز کے 20 ممالک کے 55شہروں میں بیرون ملک آباد پاکستانیوں نے مظاہرے کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے جمہوری حقوق کے لیے بین الاقوامی دینا میں آواز بلند کر رہے ہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پی ٹی آئی کی حمایت اور بین الاقوامی مداخلت کے مطالبات کے پیغامات سے بھر گئے ہیں۔ ہیش ٹیگ #StandWithImranKhan عالمی سطح پر ٹرینڈ بن رہا ہے، جو رائے عامہ میں گہری تقسیم کو واضح کرتا ہے۔پاکستان کا سیاسی بحران ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک پہلے ہی اقتصادی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے، بشمول بلند افراط زر، بڑھتے ہوئے قرضوں اور کرنسی کی قدر میں کمی۔ تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی تعطل کمزور معیشت کو مزید غیر مستحکم کر سکتا ہے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ صرف سیاسی بحران نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا فرسودہ نظام ہے جو پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے جس پر کئی سیاسی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی بامعنی بات چیت میں ناکامی ملک کو پاتال کی طرف دھکیل رہی ہے۔ آگے کا راستہ: بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان، بات چیت اور مفاہمت کے مطالبات زور و شور سے بڑھ رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور کچھ سیاسی جماعتوں نے حکومت اور پی ٹی آئی دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے بصورت دیگر پاکستان کے شہری ایک ایسے سیاسی بحران کا شکار رہیں گے جس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے جیسے ہی حکومت اپنی گرفت مضبوط کرتی ہے اور پی ٹی آئی دباؤ برقرار رکھنے کا عزم کرتی ہے، قوم حیران رہ جاتی ہے۔ یہ تعطل کب تک جاری رہ سکتا ہے، اور کس قیمت پر؟ بہت سے لوگوں کے لیے، ایک پرامن حل کی امید دوسری صورت میں تاریک صورت حال برقرار نظر آتی ہے۔ اس کے بغیر، پاکستان کا مزید افراتفری کی فضا میں سانس لینا کسی خطرے سے کم نہیں جس کے مضمرات کہیں زیادہ دور تک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ بی بی سی اردو کے"اسلام آباد کے تجزیہ نگاروں نے سوشل میڈیا کے ذریعے کہا ہے کہ اسلام آباد جو پا کستان کا دارحکومت ہے آج ایک قلعے کی مانند محسوس ہو رہا ہے جو ہر طرف سے بند ہے۔ جہاں سڑکیں اور گلیاں کنٹینرز لگا کر بلاک کی جا رہی ہیں، وہیں سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ انہی میں خواتین اہلکار بھی شامل ہیں۔ وائس آف امریکہ نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں تحریکِ انصاف کی جانب سے احتجاج کے اعلان کے بعد انتظامیہ نے اسلام آباد میں داخل ہونے کے تمام راستے سیل کر دیے ہیں یا ان پر سیکیورٹی دستے تعینات ہیں۔ دوسری جانب ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس متاثر اور سوشل میڈیا ویب سائٹس تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔