• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیراتی صنعت میں روبوٹس کا استعمال عام ہونے کا امکان

آئے روز ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک جدت متعارف ہورہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے انسان کے لیے زندگی کے ہرشعبہ میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور ہر چیز کا ایک Trade-Offہوتا ہے۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ’X‘ چاہیے تو آپ کو ’Y‘ کی قربانی دینا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات تعمیرات کی صنعت میں متعارف کرائی جانے والی نئی ٹیکنالوجیز سے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے۔ تعمیرات کی صنعت میں آج کل روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کا استعمال بڑے پیمانے پر زیرِ بحث ہے۔

تعمیراتی صنعت میں استعمال ہونے والے روبوٹس کی طلب میں اضافے کی چند وجوہات بیان کی جاتی ہیں، جن میں پیداوار (Productivity)اور معیار میں بہتری لانا جبکہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے باعث عمارتوں کو پائیدار بنانا شامل ہے۔

یہاں ایک رپورٹ کا ذکر کرتے ہیں۔ مستقبل پر نظر رکھنے والے، این پیئرسن کی 85فی صد پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے 2045ء کے بارے میں کچھ باتیں کیں کہ 20سال بعد دنیا کے بارے میں ہماری کیا توقعات ہو سکتی ہیں۔ پیئرسن نے تعمیراتی ادارے ہیوڈن کے ساتھ ایک رپورٹ تیار کی ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ تعمیراتی صنعت میں اگلے 20سال میں کیا ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں کے سامنے آنے سے شہری عمارتیں زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی کی حامل ہوں گی۔ 

اس رپورٹ میں کئی اور پیش گوئیاں بھی کی گئی ہیں، جو دلچسپی سے خالی نہیں۔ پیئرسن کے مطابق، عمارت میں رہنے والے اس عمارت سے باتیں کر سکیں گے اور انھیں مختلف کام کرنے کے احکامات بھی جاری کرسکیں گے۔ جیسا کہ گھر کے اندر درجہ حرارت تبدیل کرنے کا حکم دینا وغیرہ۔ 

مستقبل میں بڑھتی ہوئی طلب اور زمین کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ انتہائی بلند عمارتوں کا رجحان بڑھ جائے گا تا کہ گھر کی قیمتوں کو کم کرکے اسے درمیانے درجے کی آمدنی رکھنے والے افراد کی دسترس میں لایا جا سکے۔ یہ عمارتیں چھوٹے شہر کی مانند کام کرسکیں گی، جس میں رہائش اور کام کے دونوں مقامات ہوں گے۔

آپ کو شاید ’’بیک ٹو دی فیوچر2‘‘ کا وہ منظریاد ہو کہ جس میں مارٹی کا مستقبل کا گھر ایک ایسی کھڑکی کا حامل تھا، جو کسی بھی منظر کو تبدیل کر سکتا ہے۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ مستقبل میں عمارتوں میں کھڑکیاں نہیں ہوں گی بلکہ ان کی جگہ ورچوئل ریئلیٹی (VR)اسکرینیں نصب ہوں گی۔

شمسی کوٹنگ کا انحصار اس بات پر ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کتنی ترقی کرتی ہے کہ وہ ایسی انتہائی چھوٹی چیز تیار کر سکے جو سورج کی روشنی کو جذب کر کے اسے توانائی میں بدل سکے، لیکن اس کا امکان ہے کہ آپ اسپرے کریں اور وہ جگہ شمسی توانائی حاصل کرنے والی بن جائے۔ 

گھر، دفتر یا عمارت کو گرم اور ٹھنڈا رکھنا ہو یا پھر اس میں روشنی کا انتظام کرنا، ہر کام آپ کے حکم کے مطابق ہوگا۔ آپ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ آپ کے لیے کتنا درجہ حرارت اور کتنی روشنی اس وقت مناسب ہے۔ جاپان کے ایک مشہور ادارے نے ایک ایسا روبوٹک لباس تیار کیا ، جو بڑی اور بھاری چیزوں کو اُٹھانا آسان بناتا ہے۔ 

یہ آئرن مین لباس انسانوں کے لیے بہت سارے کاموں کو آسان بنا سکتا ہے اور رپورٹ بتاتی ہے کہ مستقبل میں تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والوں میں ایسے روبوٹک لباسوں کا استعمال عام ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق مستقبل میں کئی منصوبوں پر روبوٹ، انسانوں کے شانہ بہ شانہ کام کریں گے بلکہ جن کاموں میں دھماکے یا تباہی کا خطرہ ہو، وہاں یہ کام مکمل طور پر روبوٹس کے ہاتھوں میں ہوگا۔

کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ تعمیراتی صنعت میں روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کا استعمال بڑھنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ تعمیراتی صنعت میں ہنریافتہ افراد کی بتدریج کمی ہوتی چلی جائے گی۔یہ کمی سب سے زیادہ یورپ میں محسوس کی جائے گی۔ 

اس وجہ سے، یورپ کی تعمیراتی صنعت میں روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ وہاں تعمیر و ترقی اور عمارتوں کو منہدم کرنے والے روبوٹس کے لیے بڑی فیکٹریاں قائم ہوں گی، کیوں کہ رہائشی اور غیررہائشی تعمیراتی منصوبے بڑے پیمانے پر شروع کیے جائیں گے۔

روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کی صنعت کی پائیدار ترقی اور انھیں انسانوں کا خدمت گار بنانے کے لیے حکومتوں کا اس شعبے پر نظر رکھنا ناگزیر ہوجائے گا اور انھیں نئی قانون سازی کرنا ہوگی۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال، جہاں تربیت یافتہ ورک فورس کی کمی کو پورا کرے گا، وہاں اس سے ہزاروں اورلاکھوں ایسے افراد بھی بے روزگار ہوجائیں گے، جو کام کرنے کے خواہاں تو ہوں گے، لیکن ان کی نوکری ٹیکنالوجی کھا جائے گی۔

امریکا جیسے ملک میں بھی روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کے باعث انسانی ورک فورس کو پہنچنے والے اثرات کو محسوس کیا جارہا ہے، جہاں کھیتوں سے لے کر تیل نکالنے والی رِگز تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں روبوٹک مزدوروں کو خوش دلی سے قبول کیا جارہا ہے۔