اس مُلکھ(ملک) میں کون ہے جسے روحانیت سے انکار ہے، کون ہے جو جادو کو برحق نہیں مانتا؟ مُلکھ میں ہر چیز روحانیت کی پابند ہے اسی سے یہ مُلکھ چل رہا ہے۔ یہاں اکثر سبز پوش بم کیچ کرکے دریائوں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہاں کی بادشاہی کا فیصلہ بھی روحانیت کی دنیا میں ہی ہوتا ہے۔ یہاں بھوت پریت، روحیں، جن اور چڑیلیں اکثر واقعات اور معاملات میں کارفرما ہوتی ہیں۔ یہ افسوں اور طلسم کی نگری ہے یہاں دلیل اور عقل و ہوشمندی کا کوئی دخل نہیں۔یہ اِسی مُلکھ میں ہی ہوا ہے کہ 35ہزار روحیں سیدھی پختونخوا میں اتریں مُلکھ کی رانی کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور انکی معیت میں جادوئی دار الحکومت اسلام آباد کی طرف رخ کیا۔ یہ پاک روحیں اور موکل پہاڑوں، ناکوں اور پابندیوں کو جادو کے زور سے اڑاتےگئے۔ان روحوں اور موکلوں کو نہ بھوک لگی نہ سردی وگرمی۔نہ انہیں کوئی خوف تھا اور نہ اندیشہ۔ وہ مُلکھ میں آگے سے آگے بڑھتے گئے روحوں، موکلوں اور جنوں کا کمزور انسانوں سے کیا مقابلہ؟جن تو ایک بھی ہو تو ہزاروں انسانوں پر بھاری ہوتا ہے یہاں تو 35ہزار جن تھے، موکل تھے، روحیں تھیں ،کسی نے مقابلہ کیا کرنا تھا ؟وہ ہر رکاوٹ کو غیبی طاقت سے توڑتے اور مسلتے رہے ،یہ سب جادو کا کارخانہ ہے ۔
حکومت تو پاگل لگتی ہے جو یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ لاشیں دکھائو، جنازے ثابت کرو، 278نام سامنے لائو۔ یہ سراسر احمقانہ مطالبہ ہے روحوں کی لاشیں کہاں ہوتی ہیں ان کے جنازے کہاں ہونے تھے؟ وہ تو موکل تھے ،جن تھے، روحیں تھیں ناپاک عناصر آئے آنسو گیس اور ربڑ بلٹس جیسی حرام چیزیں سامنے آئیں تو روحیں پرواز کر گئیں، جن عالم غیب میںچلےگئے اور موکل آنکھوں سے پردہ کر گئے۔ طلسماتی دنیا کے یہی دستور ہیں یہاں چونکہ سب جادو ہے اسلئے حیرانی کی کیا بات ہے؟جادو کا کارخانہ تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کے کئی لیڈر بھی بالکل احمق ہیں جو کہتے ہیں کہ کپتان نے جب ڈی چوک جانے سے منع کیا تھا توپھرمُلکھ کی رانی نے یہ بات کیوں نہ مانی ۔احمقو! رانی کا ڈونکی راجہ سے مسلسل روحانی رابطہ تھا ۔موکل اڈیالہ جیل جا رہے تھے ،پل پل کی خبریں وہاں پہنچا رہے تھے اور لمحہ بہ لمحہ راجہ کے احکامات رانی تک پہنچا رہے تھے۔ فون فیل ہوسکتے ہیں، وائی فائی بند ہو سکتا ہے، وی پی این دھوکہ دے سکتے ہیں، موکل ناکام نہیں ہو سکتے ۔رانی اور راجہ کا مسلسل رابطہ تھا سب کچھ راجہ کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہوا احمقوں کو جان لینا چاہئے کہ یہ سب جادو کا کارخانہ ہے، یہ شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں انسانی عقل جاکر ختم ہوتی ہے۔
کئی بیوقوف یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ جادو تھا ،روحانی معاملہ تھا تو پھر یہ ناکام کیوں ہو گیا؟جیل کے تالے پگھل کر کیوں نہ ٹوٹے، موکل ڈونکی راجہ کو جیل سے کیوں نہ نکال سکے وغیرہ وغیرہ۔ ان بیوقوفوں اور عقل کے اندھوں کو یہ معاملہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ معرکہ پاک اور ناپاک قوتوں، روحانی اور مادی طاقتوں، نیک جنوں اور بدجنوں کے درمیان تھا، یہ 35ہزار پاک روحیں تھیں روحانیت سے مالا مال، نیک جنوں اور موکلوں کے ہمراہ۔ مقابل شیطانی طاقتیں تھیں، شیطانی طاقتیں کئی بار روحانی طاقتوں کو شکست دے ڈالتی ہیں بڑے بڑے روحانی لیڈر، شیطان کے جھانسے اور محاصرے میں آکر ہار جاتے ہیں مگر یہ شکست دائمی نہیں عارضی ہوتی ہے بالآخر تو حق، سچ اور روح نے ہی جیتنا ہے جھوٹ اور جسم تو بالآخر ہاریں گے۔
کئی ناپسندیدہ لوگ روحوں کی رانی کے غائب ہونے کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ اگر رانی آخری جنگ جیتے بغیر شہید یا گرفتار ہو جاتی تو پھر باقی کی جنگ کون لڑتا؟یہ پی ٹی آئی کے بالشتیے، بونے اور طاقتوروں کے چمچے خود جنگ لڑ کر تو راجہ کو رہا نہیں کروا سکتے ،یہ سب بھی مل جائیں تو اکیلی میری روحانی طاقت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے، کبھی اجلاسوں میں آکر دیکھا کرو یہ سب میرے سامنے زلفی بخاری کی طرح سر جھکا جھکا کر جی بی بی، جی بی بی کرتے ہیں، ان کی میرے روحانی کمالات اور میرے دنیاوی جاہ وجلال کے سامنے کیا حیثیت ہے ؟ یہ سب تو بس پیادے ہیں میں شطرنج کی بازی کی وزیر اور ڈونکی راجہ اس کا بادشاہ ہے۔ ہماری لڑائی بہت بڑی ہے یہ پیادوں سے نہیں روحوں سے لڑی جائے گی، اس میں موکل بھی ہمارے ساتھ ہونگے ،جن بھی اور بعض فرشتے بھی ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔
ڈی چوک معرکے کا دنیا کی اگر پہلی دیومالائی جنگ ٹروجن وار (TROJAN WAR)سے تقابل کیا جائے تو بہت سی مشترکات نظر آتی ہیں۔ اس جنگ میں بھی کئی دیوتا، جن اور موکل شامل تھے۔ ہیلن آف ٹرائے کے حصول کیلئے لڑی گئی یہ جنگ دنیا بھر کے ادب بالخصوص انگریزی اور یونانی ادب کی اساس سمجھی جاتی ہے۔ اس رزمیہ کہانی کو لکھنے والا ہومر (HOMER)یا تو واقعی نابینا تھا یا اسے تلمیحاتی طور پر نابینا کہا جاتا ہے،تاہم اس نے جنگ اور اس کے کرداروں کا جو نقشہ کھینچا وہ دیدہ ِبینا رکھنے والے آج بھی نہیں کھینچ سکتے۔ اس دیومالائی جنگ کے دو واقعات آج بھی بار بار یاد کئے جاتے ہیں، ایک واقعہ اکیلیس کی ایڑی(ACLILLES HEEL) پر لگنے والے تیر کا ہے، اکیلیس کو دیوتائوں کی دعا تھی کہ اس کے سارے جسم پر تلوار،نیزے اور تیر اثرنہیں کرتے تھے بس اسکی ایڑی اس اثر سے مبرا تھی، اسی لئے آج بھی جب کسی شخص کی ایسی کمزوری کا ذکر کیا جائے جس کی وجہ سے وہ ناکام ہوا یا ناکام ہوئی تو اسے’’ اکیلیس کی ایڑی ‘‘کہا جاتا ہے، اسلام آباد لانگ مارچ کی دیومالائی کہانی میں رانی کی ایڑی، آڑے آ گئی اگر ان کی ایڑی ٹھیک ہوتی تو وہ آگے چلتی رہتیں لیکن ایڑی نے جواب دے دیا تو انہیں ڈنڈا پورکےرتھ میں پناہ لینا پڑی۔رانی کا قصور ذرہ برابر نہیں ایڑی کی وجہ سے سب کچھ ہوا اصل خرابی رانی کی ایڑی بنی وگرنہ فتح تو مقدر تھی۔دوسرا واقعہ ٹروجن گھوڑے (TROJAN HORSE)کا ہے، ٹروجن ہارس دراصل لکڑ ی کا بہت بڑا گھوڑا تھا جس میں سپاہی چھپے بیٹھے تھے محاورتاً ٹروجن گھوڑا، ایسی دھوکہ دینے والی حکمت عملی کو کہتے ہیں جیسے یونانیوں نے لکڑی کے اس گھوڑے کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا ٹروجن اسے لوٹ کا مال سمجھ کر شہر کے اندر لے گئے رات کو چھپے ہوئے یونانی سپاہیوں نے شہر کے دروازے کھول دیئے اور یوں ٹرائے کو شکست فاش ہوئی ۔معرکہ اسلام آباد میں بھی جھانسے اور پھندے کےطور پر شہر کے اندر روحوں کو آنے دیا گیا اور پھر ناپاک شیطان جنوں کو اُن پر چھوڑ دیا گیا۔اب رانی کی ایڑی بھی خراب تھی ٹروجن گھوڑے والا حربہ بھی کامیاب رہا اور سیدھی سادی غیر سیاسی روحیں اور جذباتی جن ناکام ہوگئے۔
اسلام آباد مارچ کو ٹروجن جنگ کہیں، حق و باطل کا معرکہ کہیں ،رانی کی رزمیہ کہانی کہیں یا اسے ڈونکی راجہ کی زور زبردستی سے رہائی کا حربہ کہیں ،اسے جو بھی نام دیں یہ تو ماننا پڑے گا کہ جادو کبھی ہارتا نہیں، روح کبھی شکست نہیں کھا سکتی، موکل مار نہیں کھا سکتے، جن پسپا نہیں ہو سکتے۔ یہ سب جادوکا کارخانہ تھا آپ کو دھوکہ ہوا ہے روحیں اور جن ہی جیتے ہیں، بس پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔