فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ شاخ نے سندھ کابینہ کے حالیہ فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس فیصلے میں غیر تعلیمی منتظمین کو پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے طور پر تعینات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
فپواسا نے کہا ہم اس فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری سندھ پروفیسر عبدالرحمان ناگ راج نے اپنے مذمتی بیان میں کہا اگرچہ اعلیٰ درجے کی پوسٹ میں کم از کم چار سال کے تجربے کی ضرورت کو سراہا جاتا ہے، لیکن غیر پی ایچ ڈی اور غیر تعلیمی افراد کو وی سی کے عہدے کے لیے اہل امیدواروں کے طور پر شامل کرنا مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایک وائس چانسلر محض ایک منتظم نہیں ہوتا، وہ کسی یونیورسٹی کا علمی اور فکری رہنما ہوتا ہے، جو جامعہ کی تعلیمی سمت، تحقیقی ترجیحات اور ادارہ جاتی ترقی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
پروفیسر عبدالرحمان ناگ راج نے کہا کہ غیر تعلیمی ماہرین وی سی نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ ل تعلیمی جلوسوں، سیمینارز، اکیڈمک کونسل کے اجلاسوں، پی ایچ ڈی ریسرچ سیمینارز اور جلسہ تقسیم اسناد کی صدارت کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہ ذمہ داریاں کافی تدریسی اور تحقیقی تجربے کے ساتھ ایک نامور ماہر تعلیم کی مہارت کا تقاضا کرتی ہیں، ایک غیر تعلیمی شخصیت میں جامعات کے تحقیقی اور اختراعی ایجنڈے کی نمائندگی کرنے یا اس کی رہنمائی کرنے کی اہلیت کا فقدان ہوتا ہے، جو کہ اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے لیے اہم ہے۔
انھوں نے کہا کہ غیر تعلیمی منتظمین کا تقرر جامعات کی تعلیمی سالمیت کو مجروح کرےگا اور سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کے لیے ایک نقصان دہ مثال قائم کرے گا، کسی بھی وی سی کی پوزیشن کےلیے، خاص طور پر عام یونیورسٹیوں کے لیے پی ایچ ڈی کی کم از کم اہلیت ہونی چاہیے اور معیار کو یقینی بنانا چاہیے کہ مکمل پروفیسر شپ کے اہل صرف نامور ماہرین تعلیم ہی وی سی تقرریوں کے لیے زیر غور آئیں۔
انھوں نے کہا غیر تعلیمی منتظمین کو وی سی بننے کی اجازت دینے والی مجوزہ ترامیم کو منسوخ کیا جانا چاہیے اور شفاف اور میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں، انتخاب کے عمل کو تعلیمی اداروں میں میرٹ، تعلیمی کامیابیوں اور قائدانہ صلاحیتوں کو ترجیح دینی چاہیے۔
پروفیسر ناگ راج نے کہا کہ فپواسا سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم پر ثابت قدم ہے۔ ان اداروں کو عالمی معیار تک بلند کرنے کے لیے یونیورسٹیوں کی قیادت تعلیمی اسناد اور وژن کے حامل افراد کے پاس ہونی چاہیے۔ ہم سندھ حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور تعلیمی اداروں اور صوبے میں تعلیم کے مستقبل کے بہترین مفاد میں کام کرے۔