• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام ، معاشی زبوں حالی اور بد امنی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ ریاست کی بنیادیں کھوکھلی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ ہر روز کے جلسے جلوس، دھرنے ، تخریب کاری ، شہروں کی بندش ، گرفتاریاں ، مظاہرین اور اداروں کی طرف سے پر تشدد کارروائیوں نے ہر طرف گویا ایک میدان ِ جنگ کا نقشہ کھینچ رکھا ہے۔ایسے میں خدا نخواستہ اچھے خاصے ترقی یافتہ ملک کا کباڑا ہو سکتا ہے جبکہ نزلہ بر عضوِضعیف کے مصداق ہمارے جیسا ملک جو پہلے ہی اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی زد میں ہے، اپنے وجود اور سالمیّت کے لحاظ سے انتہائی خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہو سکتا ہے۔ پوری دنیا پاکستان کو تشویش کی نگاہوں سے دیکھ رہی لیکن اگر کسی کو ان خطرات کا ادراک نہیں تو وہ ہمارے مقتدر حلقے اور سیاستدان ہیں جنکی ہمدردیاں اس ملک اور عوام کی بجائے اپنے ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات کے ساتھ زیادہ منسلک نظر آتی ہیں۔ سیاسی تقسیم ، نفرت اور انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے خاصے پڑھے لکھے افراد کھلے عام یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اگر ان کا لیڈر نہیں تو ہمیں پاکستان بھی نہیں چاہیے ۔ جب عقیدت ، عقیدہ بن جائے اور عام انسانوں کو مرشد اور ولی کا درجہ دے دیا جائے تو پھر معاملات سیاسی نہیں جذباتی بن جاتے ہیں۔ جن کا کوئی منطقی حل نہیں ہوتا۔ اسی طرح پاکستان کے بعض مقتدر حلقے بھی عمران خان کے بارے میں انتہا پسندی کا شکاردکھائی دیتے ہیں اور اُسے کسی قیمت پر راستہ دینے کیلئے تیارنظر نہیں آتے ۔ وہ عمران خان کو نظام کے خلاف ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اُن کے سامنے اپنے ہی ملک کی تلخ تاریخ موجود ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کرنے کے باوجود وہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی اسے سیاسی موت کے گھاٹ نہیں اتارا جا سکا۔ اگر بھٹو کو شہید نہ کیا جاتا تو شائد آج وہ قدرتی طور پر دنیا سے رخصت ہو چکے ہوتے لیکن بھٹو کی پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے برسوں تک ملک میں جتنی سازشوں کے ذریعے وقت اور وسائل ضائع کئے گئے انہوں نے سیاسی عدم استحکام ، معاشی ترقی اور ملکی وحدت کو شدید متاثر کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کی واردات میں شہید کیا گیا تو سندھ میں علیحدگی کے نعرے گونجنے لگے وہ توصدر آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے فوراً’’پاکستان کھپّے‘‘ کے نعرے کے ذریعے عوام کے اشتعال کو ٹھنڈا کیا۔ کیونکہ کوئی بھی حقیقی سیاسی جماعت تشدّد کی سیاست کو اپنے اور اپنے ملک کیلئے زہر ِ قاتل سمجھتی ہے۔ پیپلز پارٹی بارہا اس سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ الذوالفقار نامی تنظیم نے جب پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا تو پیپلز پارٹی نے اس کی پرزور مذّمت کی اور خود کواس سے الگ ثابت کیا۔ ورنہ ضیاء انتظامیہ کی پوری کوشش تھی کہ ریاستی تشدّد کے ذریعے پارٹی کو ختم کردیا جائے اس سلسلے میں بہت سے افراد کو گرفتار بھی کیا گیااور بیرونِ ملک بھی بھیجا گیا لیکن پیپلز پارٹی کی جمہوری جدوجہد ہمیشہ پر امن رہی حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کو تمام عالمی رہنمائوں کی اپیل کے باوجود ایک جھوٹے مقدمے میں موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ اس کے باوجود کہ لاکھوں کا رکنوں کی گرفتاری، ہزاروں کو کوڑوں کی سزا اور سینکڑوں جیالوں کی پھانسیوں کے باوجود نہ تو پیپلز پارٹی نے ریاستی اداروں پر حملہ کیا نہ ہی اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹ اور غلاظت کے انبار لگائے۔ جہاں تک الیکشن 24کے رزلٹ کا تعلق ہے تو میں نے الیکشن کے فور اً بعد لکھا تھا کہ سابقہ انتخابات کی طرح ان انتخابات کی بھی کوئی کریڈیبلٹی نہیں اور اس پر متعلقہ سیاسی جماعتوں کو احتجاج کا پورا حق حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ اس صورتِ حال کا شکار رہی ہے۔ 10اپریل 1986کو شہید بی بی کے استقبال کیلئے پورا پنجاب لاہور میں امڈآیا۔ مگر 88-89ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی سے پنجاب چھیننے کیلئے آئی جے آئی تشکیل دی گئی اور دھاندلی کا ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جس سے بی بی کو مرکز میں لولہ لنگڑا اقتدارملا۔ پھر انہیں صرف 18ماہ کے بعد ہی اقتدار سے محروم کر دیا گیا اور 90کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو نہ صرف قومی اسمبلی میں صرف 17سیٹوں تک محدود کر دیا گیا بلکہ اس سے اس کا گڑھ سندھ بھی چھین لیا گیا۔یہ عمل تقریباًہر الیکشن میںدہرایا گیا مگر ایک حقیقی سیاسی جماعت ہونے کے ناطے پیپلز پارٹی نے تشدد کا راستہ اپنانے کی بجائے خود کو سیاسی عمل میں شامل رکھا۔ اگرچہ یہ افسوسناک بات ہے مگر ڈیپ سٹیٹس میں صرف سیاسی عمل کے ذریعے ہی سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی سپیس (Space) بناتی ہیں بلکہ اقتدار تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ عوامی حمائت کے باوجود سیاسی بصیرت کی کمی کی وجہ سے نہ صرف وہ ملک کی دیگر جماعتوں کا تعاون حاصل نہیں کر سکی بلکہ اقتدار سے بھی ابھی تک محروم ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ صورتِ حال جوں کی توں رکھی جائے۔ اس کاواحد حل یہ ہے کہ جہاں ہم سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی برتری کے خلاف متحد نہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں وہاں اسٹیبلشمنٹ سے بھی اپیل کریں کہ یہ ملک ان کا بھی ہے وہ خود سب سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرکے باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے خود کو ایک پلاننگ کے ذریعے سیاست سے الگ کردے اور نت نئے بُت تراشنے کا عمل ختم کردے۔ کیونکہ آپ بُت بناتے ہیں تو وہ خدا بھی بن جاتے ہیں۔ آج کا شعر

بُت گرو! ان کی خدائی کو بھی تسلیم کرو

بت اسی واسطے بنتے ہیں خدا ہو جائیں

تازہ ترین