حضرت یعقوب علیہ السّلام کا لقب’’اسرائیل‘‘ تھا اور اُن کی نسل اُن کے بارہ بیٹوں سے چلی۔ یہی بعدازاں’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائے۔ حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر میں صاحبِ اختیار ہوئے، تو اُنہوں نے اپنے پورے خاندان کو وہیں بلوا لیا۔ اُس وقت مصر میں’’چرواہوں‘‘ کی بادشاہت تھی۔اُن کے بعد مصر کا اقتدار فرعون خاندان کے ہاتھ آ گیا اور اُنہوں نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔فرعون رعمسیس کے ساتھ طویل اعتقادی کشمکش کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السّلام اپنی قوم کو فرعونوں کی غلامی سے نجات دِلا کر نکلے، تو راستے میں اس قوم کی غلامی کے دَور میں بگڑی فطرت اور شرک و بُت پرستی کی عادت بار بار نمایاں ہوتی رہی۔
اس کی مسلسل نافرمانیوں کی پاداش میں فراعنۂ مصر سے نجات پانے والی نسل صحرائے سینا میں چالیس سال تک بھٹک بھٹک کر ختم ہوئی۔ اس نسل میں سے حضرت یوشعؑ اور حضرت کالبؑ کے سِوا کوئی ارضِ موعود تک نہ پہنچ سکا۔بنی اسرائیل کی اگلی نسل فلسطین میں جا کر آباد ہوئی ۔930 قبلِ مسیح میں اُن کی وہاں دو ریاستیں قائم ہوئیں۔ دس قبائل کی شمال میں ’’اسرائیل‘‘ کے نام سے ریاست قائم ہوئی، جب کہ یہودا اور بنجمن دو قبیلوں نے جنوب میں یہودا(Judah)کے نام سے ریاست قائم کی۔
ان کی عہد شکنی، بے وفائی اور سرکشی کی وجہ سے آشوریوں نے شمال کی ریاست پر قبضہ کر کے دس قبائل کو اپنا غلام بنا کر اُن کے عقائد، زبان، لباس، تراش خراش اور تہذیبی و تمدّنی نقوش ایسے مِٹائے کہ تاریخ کے اوراق سے اُن دس قبائل کا وجود ہی گم ہو گیا۔آج بھی وہ’’دس گم شدہ‘‘ قبائل شمار ہوتے ہیں۔باقی دو قبیلوں کی سلطنت بھی تباہی سے نہ بچ سکی۔
یہ اُکھڑتے، بستے اور برباد ہوتے رہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ خود اُنھیں کوئی ٹھکانا فراہم کر دیتا، تو کبھی کوئی دوسری غالب قوم اُنھیں سہارا دے دیتی۔ یاد رہے، فلسطین شروع ہی سے فلسطینیوں کا تھا۔ یہودیوں کے برعکس، فلسطینی اپنی سرزمین پر اطمینان کی زندگی گزارتے رہے۔
یہودیوں کی فتنہ پرور اور فساد انگیز روش کی وجہ سے نقل مکانی اور جلاوطنی بار بار اُن کا مقدّر بنتی رہی۔ آشوریوں، بابلیوں اور رومیوں، گویا سب کے ہاتھوں بار بار اُنھیں سزا ملتی رہی، لیکن اس قوم نے اپنے چلن اور اطوار نہ بدلے۔ پہلے اہلِ بابل ہیکلِ سلیمانی کو مِٹا کر ان کی مقدّس علامتیں نکال کر لے گئے۔
جب ایرانی شہنشاہ سائرسِ اعظم نے بابل کو فتح کر کے ایران کا حصّہ بنالیا، تو انھیں دوبارہ فلسطین میں آباد ہونے اور ہیکلِ سلیمانی کی تعمیرِ نو کی اجازت دے دی، لیکن رومی سلطنت کے انتداب میں یہ ایک بار پھر وبال میں آگئے۔ 70ء میں رومیوں کے ہاتھوں ہیکل اِس طرح مسمار کر دیا گیا کہ آج تک دوبارہ تعمیر نہ ہو سکا۔عہدِ وسطیٰ میں یہودی ہر جگہ سے کھدیڑے گئے۔ اس کے بعد صدیوں تک ان کی قوم کا کوئی مرکزی وجود نہیں تھا۔ سورۂ آلِ عمران کی آیت 112میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان پر بار بار صادق آتا رہا۔
ترجمہ:’’یہ جہاں بھی پائے گئے، ان پر ذِلّت کی مار پڑی،کہیں اللہ کے ذمّے یا انسانوں کے ذمّے میں پناہ مل گئی، تو یہ اور بات ہے۔یہ اللہ کے غضب میں گِھر چُکے ہیں، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلّط کر دی گئی ہے اور یہ سب کچھ صرف اِس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔‘‘
رومیوں کے ہاتھوں تذلیل کی مسلسل ضربیں پڑیں، تو یہ شام اور فلسطین سے نکل کر ہسپانیہ، برازیل، پرتگال، جرمنی، برطانیہ اور شمالی افریقا میں جا آباد ہوئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی اِس سخت دشمن قوم کو سب سے زیادہ امن و تحفّظ مسلمان سلطنتوں ہی میں نصیب رہا۔ ہسپانیہ کی عظیم مسلم سلطنت میں یہ سکون اور خوش حالی کی زندگی گزارتے رہے۔یورپی اقوام ان سے سخت نفرت کرتی تھیں۔
مغربی، یورپی اقوام کی یہودیوں سے نفرت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی پہلی اور سب سے بڑی جمہوریت، برطانیہ کے شاہ ایڈورڈ اوّل نے خصوصی فرمان کے ذریعے 1290 ء میں وہاں مقیم تمام تین ہزار یہودی آبادی کو نکل جانے کا حکم دیا اور اگلے ساڑھے تین سو سال تک کسی یہودی کو برطانیہ میں آ کر آباد ہونے کی اجازت نہ دی گئی۔
پندرہویں صدی کے اواخر1492میں جب سقوطِ غرناطہ ہوا، تو جہاں مسلمانوں سے اسپین خالی کروایا گیا، وہیں ڈیڑھ لاکھ سے زاید یہودیوں کو بھی جبری طور پر وہاں سے نکال دیا گیا۔ دو لاکھ یہودیوں نے موت کے خوف سے رومن کیتھولک عقیدہ اختیار کر لیا اور ہسپانیہ میں بسے رہنے کے لیے عیسائی بن گئے۔
پاپائیت کے خلاف بغاوت
شاہِ روم کانسٹائین(Constantine) نے چوتھی صدی کے اوائل میں عیسائی عقیدہ اختیار کیا تھا اور اسی صدی کے اواخر میں عیسائیت کو پوری رومی سلطنت کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔ کانسٹائین ہی نے عیسائیت کے پانچ الگ الگ مراکز یروشلم، اسکندریہ، انتاکیہ، قسطنطنیہ اور روم کو ایک متحدہ مذہبی اتھارٹی یعنی’’پوپ‘‘ کے تابع کیا تھا۔
تب سے پوپ کو سینٹ پیٹر کا جانشین اور حضرت مسیح علیہ السّلام کا نائب یا نمائندہ مانا جاتا ہے، لیکن عہدِ وسطیٰ تک پہنچتے پہنچتے کلیسا، جاگیرداری اور شہنشاہیت کی تکون میں جو گٹھ جوڑ ہوا، اس کی وجہ سے عیسائی چرچ میں بے شمار بدعنوانیاں پیدا ہو گئیں۔ ایک عام ذہن میں اس بگاڑ کے خلاف خیالات پیدا ہوتے، لیکن پوپ کے تقدّس کا تصوّر ان پر پردہ ڈال دیتا تھا۔
سقوطِ غرناطہ کے پچیس سال بعد یہود سے ہم دردی کی ایک ایسی لہر رُونما ہوئی، جس نے عیسائیت کا سارا عقیدہ اور بیانیہ درہم برہم کر دیا۔ جرمن استاد، فلسفی اور عیسائی ماہرِ اِلٰہیات، مارٹن لوتھر نے ایک’’اِصلاحی تحریک‘‘ شروع کی، جس نے عیسائیت میں’’پروٹسٹنٹ‘‘ عقیدے کی بنیاد رکھی۔ ہم مارٹن لوتھ کی نیّت پر شک نہیں کرتے، لیکن اُس کی تحریک سے حتمی طور پر جو نتائج نکلے، اُن کی وجہ سے عیسائی دنیا کے ایک بڑے حصّے میں یہودیوں کے لیے ہم دردی اور حمایت کے جذبات پیدا ہوئے۔
مارٹن لوتھر نے وٹن برگ کے چرچ کے دروازے پر احتجاج (Protest)کے جو 95نکات چسپاں کیے تھے، اُن میں سب سے اہم نکتہ ان بخشش ناموں سے متعلق تھا، جو پوپ کے ایما اور نام پر کلیسائی اتھارٹی گناہوں کے حساب سے ریٹ مقرّر کر کے فروخت کر رہی تھی، لیکن مارٹن لوتھر کے نکات میں ایک بات یہ بھی شامل تھی کہ عیسائی عقیدہ اُس کو ماننے والے ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ بائبل کو سمجھنے، خدا تک پہنچنے اور اخروی نجات کے لیے کلیسا کو واسطہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہ گویا علّامہ اقبالؒ کے الفاظ میں؎کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے… پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو‘‘کی تحریک تھی۔مارٹن لوتھر کا ایک زیادہ اہم نکتہ ’’ Sola Fide ‘‘تھا، جس کا مطلب ہے کہ گناہ کی بخشش کے لیے عمل کی کوئی اہمیت نہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے صلیب پر لٹک کر(عیسائی عقیدے کے مطابق) ساری انسانیت کے گناہ بخشوا لیے تھے۔1571میں ملکۂ برطانیہ الزبتھ اوّل نے ایک فرمان کے ذریعے برطانوی چرچ ’’Caterbury Chuch ‘‘ کو پوپ کی بجائے تاجِ برطانیہ کے تابع کر دیا۔
یہ پروٹسٹنٹ ازم ہی کی ایک شاخ تھی، لیکن اس کی پہچان جُدا تھی۔مارٹن لوتھر کا ایک اور اہم نکتہ سامی نسل سے عدمِ مخاصمت(Antisemitism) تھا۔سامی نسل سے یہودی اور عیسائی دنیا میں یہودی ہی مُراد لیے جاتے ہیں۔عیسائی چرچ میں پروٹسٹنٹ ازم کے نام پر ان’’انحرافات‘‘کے پیچھے یہودیوں ہی کا ہاتھ تھا۔
یہودی اور امریکا
اسپین میں مسلم اقتدار ختم ہونے اور اس سرزمین کے دوبارہ عیسائیوں کے قبضے میں جانے کے بعد یہودیوں کو جبراً عیسائی بنایا گیا اور ہزاروں یہودیوں کو اسپین سے نکال دیا گیا تھا۔ وہاں سے نکل کر وہ شمال مغربی یورپ اور دیگر کئی خطّوں میں بکھر گئے۔ یہ 1492ء کا ہسپانوی مسلمانوں اور یہودیوں پر آزمائش کا وہی عرصہ تھا، جب ایک ہسپانوی یہودی کرسٹوفر کولمبس بحرِ اوقیانوس عبور کر کے اُس پار کی دنیا دریافت کرنے کی مہم پر نکلا اور اُس خطّۂ ارض پر پہنچ گیا، جو ایک نئی دنیا تھی،جسے آج’’ ریاست ہائے متحدہ امریکا‘‘ کہا جاتا ہے۔
مسلسل ضربیں کھائے ہوئے اور یورپی عیسائیوں کے ہاتھوں شکوک و شبہات، تحقیق و تفتیش اور بازپُرس کے ستائے،اپنی تراشیدہ اصطلاح میں سامی مخالفت (Anti Semitism)کے شکار یہودیوں کا رُخ اُسی نو دریافت شدہ سرزمین یعنی شمالی امریکا کی طرف ہو گیا۔جب برطانوی استبداد سے آزادی کی جنگ شروع ہوئی، تو یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد امریکا میں آباد ہو چُکی تھی اور اُنہوں نے آزادی پسند قوّتوں کا کُھل کرساتھ دیا۔ایک بڑے یہودی بروکر، خائم سالومن نے اپنے سرمائے سے اس جنگ میں مدد دی۔کئی یہودی لڑائی میں باقاعدہ شریک ہوئے اور مارے گئے۔
سولھویں اور سترہویں صدی میں برطانیہ، برازیل اور ایمسٹرڈم سے یہودیوں کی بڑی تعداد امریکا پہنچ چُکی تھی۔ انیسویں صدی کے وسط تک جرمنی سے بھی بڑی تعداد میں یہ لوگ امریکا جا کر آباد ہوئے۔ ان کی زر پرست اور تخلیقی کاروباری ذہنیت بروئے کار آئی۔ سب سے پہلے اُنہوں نے لنڈے کا کاروبار شروع کیا۔یورپ سے استعمال شدہ پرانے کپڑوں کی بھاری گانٹھیں درآمد کرتے اور نئے ڈیزائنز میں ان کی تجدید(recycling)کرکے خُوب کمائی کرتے۔
سلے سلائے نئے کپڑے اور اَن سِلے کپڑے کے تھان بھی درآمد کرتے تھے۔ نیویارک میں بینکنگ کے کاروبار پر اُنہوں نے ابتدا ہی میں اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔ نیویارک کے علاوہ لاس اینجلیس اور فلوریڈا کا ساحلی شہر، میامی بھی یہودیوں کے مراکز بن گئے تھے۔
امریکا کے نوآبادکار برطانوی، فرانسیسی اور دیگر ممالک کے لوگوں کی اکثریت پروٹسٹنٹ تھی۔ کئی عقائد میں ان کی یہودیوں سے مماثلت اور ہم دردی تھی۔یہودی آباد کاروں میں اصلاح پسند(Reformist)، قدامت پسند (Conservative) اور راسخ العقیدہ(Orthodox)،تینوں طرح کے یہودی تھے۔
اصلاح پسند یہودیوں کے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے ساتھ شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہونے لگے تھے۔ اگرچہ امریکی عیسائیوں کی رگوں میں بھی یہودیوں سے نفرت گردش کرتی تھی، لیکن یہاں پر یہ لوگ اس خوف، کشیدگی اور توہین کے خطرے سے بڑی حد تک محفوظ ہو گئے تھے، جس کا سامنا انھیں یورپی ممالک میں کرنا پڑتا تھا۔اُنہوں نے بڑی مہارت سے دونوں امریکی سیاسی جماعتوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا تھا۔
امریکا آ کر یہودیوں نے تنظیم سازی کے کام یاب تجربے کیے۔اُنہوں نے اپنی مضبوط لابیز قائم کیں۔ ٹریڈ یونین اُن کا پہلا میدان بنا۔ اس کے علاوہ مُلکی سیاست میں بھی حصّہ لینا شروع کر دیا تھا۔ری پبلکن پارٹی کا انجیلیکل عُنصر ان کا سرپرست بن گیا تھا اور ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی ان کے حامی پیدا ہو گئے تھے۔
آہستہ آہستہ اُن کے سینیٹر اور ارکانِ کانگریس بھی منتخب ہونے لگے تھے۔ایک’’عالمی حکومت‘‘ قائم کرنا اُن کا ہمیشہ خواب رہا ہے۔ اس’’عالمی حکومت‘‘ کے خاکے میں حتمی رنگ کیسے بَھرا جائے گا اور یہ ابلیسی حکومت کب قائم ہو گی، اس کا تو علم نہیں، البتہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے قدم کے طور پر اُنہوں نے ساری دنیا کو عملاً امریکا کے زیرِ نگیں لا کر ایک گلوبل نظام کی بنیاد رکھ دی ہے۔
امریکا اِس وقت عالمی ریاست(Global State) کا کردار ادا کر رہا ہے۔اس کے سیاسی، عسکری اداروں، معیشت اور میڈیا پر یہودیوں کی گرفت اِتنی مضبوط ہے کہ ہر امریکی حکومت عملاً اسرائیل اور یہودیوں کی مرضی کی پابند ہوتی ہے۔ اسرائیل کو بے تحاشا جدید ترین اسلحے کی فراہمی اور اس پر ڈھیروں ڈالرز نچھاور کرنے کے علاوہ یہودیوں کی خوش نُودی حاصل کرنا ہر امریکی صدر کی ضرورت ہے۔
یہودیوں نے دُور رَس منصوبے تشکیل دینے اور اُنھیں بروئے کارلانے کے لیے ساری دنیا میں متحرک کئی خفیہ تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ بویریا میں 1776 ء میں ایڈم ویشاپ (Adam Weishaupt) نام کے ایک شخص کے ہاتھوں وجود میں آنے والی خفیہ تنظیم ’’الیومناٹی‘‘(Illuminati) اور1771 ء میں قائم ہونے والی فری میسنز تحریک اس کی مثالیں ہیں۔
فری میسن تنظیم اور یہودی بڑوں کے خفیہ مسوّدات(Protocols of the Elders of Zion)’’زیرِ زمین یہودی‘‘(Jews Underground)اور متعدّد دوسری خفیہ تنظیمیں ان کا بہت بڑا ہتھیار ہیں، جو امریکا، یورپ اور دیگر بہت سے ممالک کی پالیسیز ہی نہیں، حکومتیں بدلوانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکا کی مشہور موٹر سازکمپنی’’فورڈ‘‘ کے بانی ہنری فورڈ نے1920ء میں’’The International Jews‘‘لکھنی شروع کی اور چار جِلدوں میں مکمل کی۔
اس میں مصنّف نے یہودی بڑوں کے پروٹوکولز کا تجزیہ کر کے بتایا کہ وہ کس طرح غیر یہودی(Gentiles)دنیا کی خاندانی، سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں روٹری کلب کا بھی بڑا چرچا تھا۔ اب شاید کچھ مصلحتوں کے تحت ان کلبز کی سرگرمیوں کی تشہیر نہیں کی جاتی۔ سیاست دان، فوجی جرنیل، بڑے صنعت کار، تاجر، بیوروکریٹس، وکیل، ڈاکٹر، طلبہ غرض ہر شعبے کے افراد ان کلبز کے رُکن بنتے ہیں۔
ان کا آغاز شاید1905 ء میں امریکا میں ہوا۔ان کے پیچھے بھی صیہونی اذہان کارفرما ہیں۔1960ءسے 1982ء تک مسلسل بائیس سال تک سینیٹ کے رُکن منتخب ہونے والے امریکی سیاست دان، پال فنڈلے کی کتاب They Dare to Speak Out: People and Institutions Confront Israel's Lobby بھی یہودی سازشوں کے بے نقاب کرنے والی بڑی چشم کُشا کتاب ہے۔
کئی عشرے قبل ایک کینیڈین مصنّف، ولیم کار کی کتاب کا عربی زبان میں’’الیہود وراء کُلِّ جریمَۃ‘‘(ہر بڑے تاریخی جرم کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا) شائع ہوئی۔اس میں مصنّف نے دونوں عالمی جنگوں اور روس میں بالشویک انقلاب جیسے بڑے عالمی واقعات میں یہودی سازشوں کا ذکر کیا تھا۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)