• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام پر اسد خاندان کا 50 سالہ دورِ حکمرانی 11 دن میں کیسے ختم ہوا؟

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

شام میں اسد خاندان کے 50 سے زائد سالوں پر محیط دورِ حکمرانی کا خاتمہ صرف 11 دن میں اس وقت ہوا جب اپوزیشن فورسز نے ایک بڑی کارروائی کے بعد دارالحکومت دمشق پر کنٹرول حاصل کر لیا۔

بشار الاسد حکومت کے خلاف اپوزیشن کے باغیوں کی حالیہ کارروائیوں کے آغاز سے اسد حکومت کے خاتمے تک کب، کیا اور کیسے ہوا اس کا مختصر احوال کچھ اس طرح ہے۔

دارالحکومت کی آزادی کا اعلان

اتوار کی صبح دارالحکومت میں داخل ہونے کے بعد حیات تحریر الشام کی اپوزیشن فورسز نے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے شام کو آزاد قرار دے دیا۔

رپورٹس کے مطابق باغیوں کے دمشق میں داخل ہونے کے بعد سابق صدر بشار الاسد دمشق سے فرار ہو گئے، جس کے بعد افواہیں سامنے آئیں کہ ان کا جہاز کریش ہو گیا اور ممکنہ طور پر بشار الاسد اپنے خاندان کے ہمراہ جاں بحق ہو گئے، تاہم بعد میں ان افواہوں نے دم توڑ دیا جب روسی ذرائع سے یہ خبر سامنے آئی کہ بشار الاسد ماسکو میں ہیں اور روس نے انہیں بشمول اہلِ خانہ سیاسی پناہ دی ہے۔

شام میں الاسد خاندان کی 53 سالہ حکمرانی کے اختتام کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا جا رہا ہے اور اسے تقریباً 14 سال قبل سال 2011ء میں عرب اسپرنگ، عوامی احتجاج سے شروع ہونے والی ایک خونریز خانہ جنگی کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔

بغاوت کیسے شروع ہوئی؟

شام میں اپوزیشن جنگجوؤں کے ایک اتحاد نے 27 نومبر کو حکومت کی حامی فورسز کے خلاف ایک بڑی کارروائی کا آغاز کیا، اس کارروائی کے تحت پہلا حملہ ادلب اور حلب کے درمیان فرنٹ لائن پر کیا گیا، اپوزیشن فورسز 3 دن کے اندر شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

بغاوت کے پیچھ کون تھا؟

اسد حکومت کے خلاف اس مہم کی قیادت حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کر رہے تھے جس میں ان کے ساتھ نیشنل فرنٹ فار لبریشن، احرار الشام، جیش العزہ اور نور الدین الزنکی تحریک سمیت اپوزیشن کے دیگر گروہ بھی شامل تھے جبکہ ترکی کی حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی کے گروپس بھی اس کارروائی کا حصہ رہے۔

کیا پورے شام پر اپوزیشن قابض ہے؟

اس سوال کے جواب میں عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ شاید پورا شام اپوزیشن کے قبضے میں آ چکا ہے تاہم اپوزیشن فورسز ابھی تک الاسد کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں لتاکیہ اور طرطوس میں داخل نہیں ہوئی ہیں لیکن وہ حماہ، حمص اور درعاء جیسے اہم شہروں پر قابض ہو چکے ہیں جو 2011ء کے انقلاب کا نقطۂ آغاز تھا۔

شامی فوج قنیطرا اور سویدہ میں بھی پیچھے ہٹ چکی ہے لیکن ان کی کوئی مؤثر مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی۔

بشار الاسد کی حکومت اتنی جلدی کیسے گری؟

عرب میڈیا کے مطابق شام کی معیشت پہلے ہی بدترین حالت میں تھی اور عوام کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا تھا، جس سے حکومت غیر مقبول ہو چکی تھی، فوج اور پولیس اہلکار اپنی پوسٹیں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اور الاسد حکومت کو فوجی اور عوامی حمایت دونوں کی کمی کا سامنا تھا۔

روسی افواج یوکرین کی جنگ میں الجھی ہوئی ہیں اور ایران و حزب اللّٰہ اسرائیلی حملوں سے متاثر ہیں جس کے باعث شامی فوج کو مدد نہ مل سکی۔

پوری حکومت مفرور نہیں

عرب میڈیا کے مطابق بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کے باوجود پوری حکومت فرار نہیں ہوئی ہے، شامی وزیراعظم محمد غازی الجلالی دمشق میں موجود ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے امور جاری رکھنے کے لیے موجود رہیں گے۔

شامی عوام کا ردِعمل

باغیوں کے کنٹرول سنبھالنے اور بشار الاسد کے ملک سے فرار کے بعد دمشق، حمص اور دیگر شہروں میں جشن کا سماں تھا۔

لوگوں نے انقلابی پرچم لہرائے، ٹینکوں پر چڑھ کر خوشی کا اظہار کیا اور حافظ الاسد کے مجسمے گرا دیے۔

مساجد میں دعائیں کی گئیں اور عوامی مقامات پر لوگ جشن مناتے اور نعرے لگاتے رہے۔

صدنایا جیل میں کیا ہوا؟

اپوزیشن جنگجوؤں نے حکومت کے زیرِ انتظام جیلوں کے دروازے کھول دیے اور ضمیر کے قیدیوں کو رہا کر دیا۔

حیات تحریر الشام نے اعلان کیا کہ صدنایا جیل میں ’ظلم کے دور کا خاتمہ‘ ہو گیا ہے۔

آگے کیا ہو گا؟

شام میں بشار الاسد حکومت کا تو خاتمہ ہو گیا تاہم اب آگے کیا ہو گا؟ یہ ابھی واضح نہیں ہے، وزیر اعظم الجلالی نے کہا ہے کہ ان کی کابینہ عبوری حکومت کے قیام کے لیے اپوزیشن کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے، حیات تحریر الشام کے سربراہ الجولانی نے کہا ہے کہ عوامی ادارے عبوری مدت کے دوران وزیرِ اعظم کی زیرِ نگرانی رہیں گے۔

عرب میڈیا کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تمام فریق تعاون کریں تو شام کے لیے بہتر مستقبل ممکن ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید