11اگست 1947ء کو اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کے قیام کی نوید دی جارہی تھی پوری دنیا کی نظریں اس نئے ابھرنے والے ملک پر لگی ہوئی تھیں۔ ہندوستان میں اس کے خلاف مختلف قسم کا پروپیگنڈہ بھی ہو رہا تھا۔ دنیا کی طاقتیں یہ جاننا چاہتی تھیں کہ یہ ملک کیسا ہو گا اور اسلام کے نام پر بننے والی مملکت میں وہاں کے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا؟ اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں دنیا کو اسلام کے اصولوں کے مطابق تشکیل دیئے جانے والے معاشرے کے بارے میں بتایا کہ پاکستان میں ہر شخص کو اس کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہو گی۔ پاکستان کے ہر باشندے کو معاشرتی زندگی میں برابر کا درجہ دیا جائے گا۔ حکومت کی نظر میں سب کے شہری حقوق مساوی ہوں گے۔ قائد اعظم نے پاکستان کے شہریوں کے برابری کے حقوق کی بات کر کے بالواسطہ طور پر دنیا کے تمام براعظموں میں واقع ملکوں کے شہریوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر روشنی ڈالی تھی انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان چونکہ اسلامی ملک ہو گا اس لئے یہاں انسانوں میں رنگ، نسل اور ذات کی بنا پر کوئی تفریق نہ ہوگی۔اگست 1947ء کو دنیا کے ایک بڑے ملک امریکہ کی صورت حال یہ تھی کہ وہاں گورے اور کالے برابر نہ سمجھے جاتے تھے۔ گوروں اور کالوں کے اسکول الگ الگ تھے،اسپتال الگ تھے۔ گورے اور کالے مسافروں کے لئے بسیں الگ تھیں۔ گورے لوگوں کے پارک میں کالے رنگ والا آدمی نہیں جا سکتا تھا۔ گوروں اور کالوں کے چرچ الگ الگ تھے۔ ملازمتوں میں بھی تفریق کی جاتی تھی۔ ریستورانوں میں بھی یہی تفریق تھی۔ امریکہ میں غلامی کو ختم کرنے کا قانون صدر ابراہم لنکن کے زمانے میں منظور ہوگیا تھا لیکن اس قانون کو منظور کرانے کے جرم میں لنکن کو قتل کردیا گیا۔ یہ قانون تو منظور ہو گیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا پھر جب جان کینیڈی نے اس قانون پر عملدرآمد کرادیا تو اس کا انجام بھی لنکن جیسا کیا گیا۔ بہرحال 1960ء کی دہائی سے امریکہ میں گورے اور کالے کی تفریق ختم ہوئی۔یہ تو بات ہوئی براعظم امریکہ کی۔ اب براعظم افریقہ کے ملکوں میں ایک ملک جنوبی افریقہ کی صورت حال اور بھی بری تھی۔ یہاں گوروں اور کالوں کے لئے واضح طور پر قانون نافذ تھے۔ شہروں میں صرف سفید فام لوگ رہ سکتے تھے۔ کالی رنگت والے لوگوں کے لئے شہر سے باہر بستیاں تھیں جن کو ٹائون شپ کہا جاتا ہے یا وہ دیہات میں رہتے تھے۔ گورے لوگوں کی بس میں کوئی سیاہ فام سفر نہیں کرسکتا تھا۔ کوئی سیاہ فام ریل کے فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں سوار نہیں ہوسکتا تھا۔ گاندھی جی اپنے جنوبی افریقہ کے قیام کے دوران فرسٹ کلاس کے ڈبے میں سوار ہوگئے تھے ان کو ایک گورے مسافر نے زبردستی ڈبے سے باہر نکلوادیا تھا۔ کسی سیاہ فام کو کرکٹ میچ دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ٹیسٹ میچ کے دنوں میں اسٹیڈیم کے آس پاس کے علاقے میں کالوں کے لئے کرفیو نافذ ہوتا تھا۔ وہ اسٹیڈیم میں اس لئے نہیں آسکتے تھے کہ وہ کسی بھی جگہ بیٹھ کر میچ دیکھیں گے تو گوروں کی برابری ہوجائے گی۔ سیاہ فام لوگ شہروں میں صرف دن کے وقت آسکتے تھے شام ہونے سے پہلے ان کو شہر سے نکل جانا ہوتا تھا دوسری صورت میں کسی بھی شخص کو ان کو گولی مارنے کی آزادی تھی۔
ایک اور براعظم آسٹریلیا میں سفید فام لوگوں کو، جنہوں نٓے یورپ سے آکر اس براعظم میں رہائش اختیار کی تھی، یہاں کے اصل باشندوں جن کو ’’ابریجینی‘‘ کہا جاتا تھا گولی مارنے کی عام اجازت تھی۔ اصل مقصد اس سرزمین کے اصل باشندوں کو ختم کرنا تھا اور لوگ تفریحاً اور اپنا نشانہ پکا کرنے کے لئے کئی کئی ابریجینز کو مار دیتے تھے۔ ان لوگوں کے پاس زندہ رہنے کا حق نہ تھا، معاشرتی حقوق تو بہت بعد میں آتے تھے۔برطانیہ میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کے درمیان تفریق عام تھی۔ آئر لینڈ کے کیتھولک لوگوں کو اپنی عبادات کے سلسلے میں پرتشدد واقعات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ہندوستان جس کی تقسیم کے بعد پاکستان قائم ہورہا تھا ذات پات کے شکنجوں میں جکڑا ہوا تھا۔ انسانوں کو مساوات کے بجائے چار درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اونچی ذات اور نچلی ذات والوں کے کنویں الگ تھے۔ اگر کوئی ہریجن کسی اونچی ذات والے کے کنویں سے پانی لے لیتا تو اس کو زندہ جلا دیا جاتا نچلی ذات والے کے سائے کو بھی ناپاک سمجھا جاتا۔ اگر اونچی ذات والے پر راہ چلتے نچلی ذات کے انسان کا سایہ بھی پڑ جاتا تو اونچی ذات والا غسل کرکے اپنا بدن پاک کرتا۔ نچلی ذات والے کے مندر الگ۔ وہ اونچی ذات والے کے ساتھ ہاتھ بھی نہیں ملا سکتا تھا۔ ریلوے اسٹیشنوں پر مختلف ذات والوں کے پانی کے مٹکے الگ الگ تھے اور ان پر واضح طور پر لکھا ہوتا تھا کہ یہ پانی کون پی سکتا ہے اور کون نہیں پی سکتا۔ یہ لوگ اپنے مذہبی تہوار تک ایک ساتھ نہیں منا سکتے تھے اسی طرح معاشرے کے کسی مقام پر ان کو برابری حاصل نہ تھی۔
یہ تھی11اگست1947ء کو دنیا کی صورت حال۔ دنیا میں اسلام کے نام پر ایک مملکت قائم ہورہی تھی اور دنیا کو پیغمبر اسلامﷺ کے خطبہ حجتہ الوداع اور میثاق مدینہ کی روشنی میں بتانا تھا کہ پاکستان میں تمام انسانوں کو برابری کا درجہ دیا جائے گا۔ ہر فرد کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور معاشرے میں اس کو برابر کے حقوق ملیں گے۔ اسکول، اسپتال، پارک، ہوٹل، بس یا اسٹیڈیم میں کسی سے نہیں پوچھا جائے گا کہ تم کون ہو؟ رنگ اور نسل کی بنیاد پر تفریق کا تصور بھی نہ ہوگا چنانچہ قائداعظم نے اپنی تقریر میں وہ جملے ادا کئے جو اب بھی کئی دلوں میں کھٹکتے ہیں۔