• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! جیسا کہ ’’آئین نو‘‘ کی شروع کی گئی سیریز کے موضوع جاریہ کی تعارفی اشاعت (7دسمبر) میں واضح کیاگیا کہ تحریک قیام پاکستان کے چار بنیادی پوٹینشل مسلم لیگ اس کی ولولہ انگیز قیادت اور نظریہ پاکستان کے ساتھ شامل ایک (چوتھا) تاریخ میں نتیجہ خیز بن جانے والا مسلمانان ہند کی صحافت و ابلاغ کا وہ کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم تھا جس نے تحریک کے ہر تین پوٹینشل (ملک گیر پلیٹ فارم، راست قیادت اور مسلمانوں کےسیاسی حقوق کا محافظ و ضامن نظریہ) کو اپنی تاریخ ساز معاونت کی فراہمی سے پارٹیشن آف انڈیا کی تقسیم سے قیام پاکستان کی ان ہونی کو ہونی بنا دیا۔ یہ معاون ابلاغی نظام (COMMUNICATION SUPPORT SYSTEM)ڈھاکہ سے پشاور تک دسیوں ایسے بڑے چھوٹے اخبارات و رسائل، پراثر خطابت، سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن کی صلاحیت کی حامل شاعری، ادب پاروں اور گھر گھر بازار و دفاتر اور کھیت و کھلیانوںو دیہات تک میں ہوئی کمی کی پیغام سازی بشکل پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ جیسے پبلک ڈس کورس (موثر ترین) اور مکمل بامقصد زبان زد عام نعرے/ بیانیے) پر محیط تھا ۔ تحریک پاکستان کا یہ ابلاغی نظام برصغیر میں اسلامیہ جمہوریہ کے وجود میں آنے کے بعد تعمیر و ترقی و بلارکاوٹ ارتقاو اصلاح کے لئے بطور بنیاد موجود تھا۔ قارئین کرام! بہت غور طلب اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان بنتے ہی مسلم نیشن کا یہ کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم (CSS) جس نے تحریک پاکستان اور قیام مسلم لیگ کے پس منظر میں مسلمانان ہند کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور ضامن بن جانے والی علمی تحریک کی ارتقائی شکل میں سی ایس ایس کی شکل اختیار کی، کا بڑا حصہ بعد از تقسیم نومولود پاکستان میں منتقل ہوگیا، جب کہ مملکت جس ارض پاک پر ریاست پاکستان بنی، اس میں زیر جائزہ ابلاغی نظام کا ایک بڑا حصہ پہلے سے موجود تھا، گویا مملکت کی تعمیر و ترقی و ارتقا کے لئے جو جملہ پوٹینشل مطلوب تھااس میں بغیر کسی حکومتی پالیسی یا گورننس کے لکی اسمارٹ ایکشن کے قدرت کی حنا بندی مانند تزئین چمن کے لئے فوری اور شدت سے درکار پورے پاکستان (بشمول مشرقی پاکستان) کے لئے موثر ابلاغی معاونت کا نظام نیا ملک بنتے ہی جھٹ سے تشکیل پا گیا۔

اردو، بنگلہ، انگریزی کے قومی اور علاقائی پالیسی کے حامل اخبارات و جرائد (مکمل پروفیشنل انداز کے) پاکستان کے جغرافیائی سرحدوں سے باہر کے قومی مفادات کی مطلوب کوریج کے بھی اہل تھے۔ نئی مملکتی ابلاغی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کیپسٹی کے حامل اس پرنٹ میڈیا کے علاوہ وقت کے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے کراچی، ڈھاکہ، لاہور اور پشاور میں ریڈیو اسٹیشنز کی موجودگی اور ان کے مطلوب تربیت یافتہ ہیومین ریسورس کی دستیابی نےقیام پاکستان کے ساتھ ہی اس بھر پور کمیونیکیشن پوٹینشل کو بغیر کسی واضح پالیسی کے سی ایس ایس کی شکل دے دی۔ حکومت نے الیکٹرانک میڈیا کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا، یہ ہنگامی ضرورت کے طور پر مطلوب ابلاغی معاونت کا بڑا ذریعہ بن گیا جس نے پارٹیشن آف انڈیا کے عظیم المیے میں تبدیل ہو جانے والے تشویشناک انسانی نفسیاتی مسائل و صدمات خصوصاً لاکھوں کی تعداد میںسرحد پار کرکے نئے وطن پہنچنے والے لٹے پٹے اور جانی و مالی اور عصمت و عزت لٹاتے مہاجرین پاک سرزمین پر آباد کاری میں نجی آزاد پرنٹ میڈیا کے شانہ بشانہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لئے ریاست کو بروقت اور اپنی تمام تر کیپسٹی کےمطابق موثر اور بھرپور ابلاغی تعاون فراہم کیا۔ افسوس ہمارے مورخ اور علمی مراکز و حکومت اس ریکارڈ کو آنے والی حکومتوں اور نسلوں کی رہنمائی اور راہ راست کے لئے (ایٹ لارج) سنبھال نہیں پائے، پھر بھی پاکستانی میڈیا کے اعلیٰ وبالا پیشہ ورانہ کردار نے ملک کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان خدمات کی شکل اطلاعات (خبروں) کی فراہمی، رائے عامہ کی تشکیل، تعلیم و تربیت و تفریح عامہ کی فراہمی تیز تر ارتقا کے ساتھ ہوئی، اس میں کنٹرولڈ الیکٹرانک میڈیا، ریڈیو پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو پاکستان ٹیلی وژن کے آغاز و ارتقا کے لئے مدر انسٹی ٹیوٹ ثابت ہوا۔ ہر دو پاکستانی میڈیا نے اپنا اصل اور باکمال و جمال کا رنگ، جنگ ستمبر (1965) میں بڑی جنگ لڑتی افواج کو بے مثال و تاریخ ساز سول پارٹنر شپ فراہم کرکے اپنا قومی فریضہ نبھایا۔افوا ج پاکستان طویل ترین سرحدی میدانی وسیع و عریض بحری اور بلند ترین فضائی معرکہ آرائی میں مدد اللہ پر مکمل بھروسہ کرتے جرأت و شجاعت اور جنگی حکمت کے حیران کن مظاہرے کرتے اپنے جوہر دکھائے تو اپنی افواج کے مکمل شانہ بشانہ پاکستانی قوت اخوت عوام نے باہم یکجا ہو کر اتنی بڑی دو ملکوں کی جنگ میں بہادری سے لڑتی ہر تین افواج کو بے مثال جملہ انواع معاونت فراہم کرکے جنگو ںکی تاریخ میں نتیجہ خیز سول پارٹنر شپ کی ایک نئی مثال قائم کی۔ ایسے ہی تو نہیں عالمی میڈیا کی نیوز رپورٹس کے مطابق ہمارے پانچ گنا بڑے دشمن کے حملے پر دفاع وطن کے کامیاب ترین ملٹری سول آپریشنز سے بھارت پر ہمارے میدانی و نفسیاتی غلبے کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے سے افواج پاکستان کی دھاک بیٹھی تھی، جس پر بھارت کو اپنے ایٹمی پروگرام میں تیزی لانی پڑی۔ یہ جو بھارت کو چونڈہ کے محاذ پر میدانی، بھارتی جنگی طیاروں کی اپنے بیسز پر ہی اور بھارتی اور پاکستانی فضائوں میں پھر دوارکا کے بحری قلعے کی کراچی سے کوسوںدور تباہی کے علاوہ بھارتی قوم و افواج کو نفسیاتی شکست فاش ہوئی اس میں ہماری جنگی سول پارٹنر شپ کے سرگرم ابلاغی محاذ کا کردار، پاکستان کی ابلاغی تاریخ کا سنہری باب ہے جس نے ایک طرف جو پوری بھارتی قوم اور دشمن کا میدان جنگ میں مورال زمین سے اور پاکستانی جری افواج و عوام کا ناقابل پیمائش بلندیوں پر پہنچادیا تھا۔

یہ جو بالائی سطور میں آپ کو قیام پاکستان کے ساتھ نومولود مملکت کے قائم ہوتے ہی فوری قومی ابلاغی ضرورتوں کے حوالے سے قدرتی حنا بندی کا ذکر کیا گیا ہے ذرا اس کی کہانی بھی جنگ ستمبر کے خصوصی حوالے سے سنیں، حنا بندی اولین سالوں میں ہی موجود معاون ابلاغی نظام سی ایس ایس کی تشکیل نو سے ہوئی۔ نظریہ پاکستان کے عمل شکل میں ڈھل جانے کے بعد اب ’’مسلم‘‘ سے پاکستانی ہوگئی صحافت جو کہ ہمارے جدت اختیار کرتے قومی ابلاغی دھارے کا غالب حصہ تھا، ایک جمہوری اور اسلامی مملکت کے حوالے سے ملک کو چلانے بنانے کے پولیٹکل آرڈر کے تناظر کی بحث میں قومی سوچ کا حامل ایک تو مکمل غالب اور دوسرے ایک قلیل لیکن اہم نقطہ ہائے نظر میں تقسیم ہوگیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین