• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10 سالہ سارہ شریف کے قتل میں باپ اور سوتیلی ماں مجرم قرار، 17 دسمبر کو سزا سنائی جائے گی، چچا پر قتل کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا جرم ثابت

لندن (سعید نیازی) گزشتہ برس لندن کے نواحی علاقے ووکنگ میں کئی ماہ تک تشدد کا شکار رہنے کے بعد قتل کی جانے والی 10 سالہ بچی سارہ شریف کے قتل کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ کریمنل کورٹ اولڈ بیلی کی عدالت کے جج نے سارہ کے والد عرفان شریف اور سوتیلی والدہ بینش بتول کو قتل کا مجرم قرار دے دیا، جبکہ چچا پر قتل کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا جرم ثابت ہوا۔ تمام مجرمان کو سزا آئندہ ہفتہ منگل 17دسمبر کو سنائی جائے گی۔تشدد کے باعث سارہ شریف کو شدید زخم آئے جن میں جلنا، ہڈیوں کا ٹوٹنا اور کاٹنے کے نشانات شامل ہیں۔ فیصلہ سنائے جانے کے بعد اولڈ بیلی کے باہر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ انسپکٹر کریگ ایمرسن نے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں انہوں نے سارہ کی برداشت اور بہادری کی تعریف کی اور ان کی حقیقی والدہ اولگا اور بہن بھائیوں سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔ انہوںنے کہا کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ کیس تھا جس سے سرے پولیس نے نمٹا۔ واضحرہے کہ سارہ شریف کی لاش ووکنگ میںواقع اس کے گھر سے پولیس کو گزشتہ برس 10 اگست کی صبح اس وقت ملی جب سارہ کے والد عرفان شریف کی طرف سے پاکستان سے سرے پولیس کو مطلع کرکے بتایا گیا تھا کہ گھر میں سارہ کی لاش موجود ہے۔ جس کے بعد سرے پولیس نے عرفان شریف اور دیگر کی تلاش شروع کر دی تھی۔ عرفان شریف کے علاوہ سارہ کی سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا کے علاوہ اس کے دیگر بہن بھائی 9 ستمبر کو پاکستان روانہ ہو گئے تھے اور پاکستان پہنچ کر عرفان کی طرف سے پولیس کو کی جانے والی کال میں کہا گیا تھا کہ سارہ کی موت اس کو پیٹنے کے سبب واقع ہوئی لیکن اس کی نیت سارہ کو جان سے مارنے کی نہیںتھی اور اس کو دی گئی سزا قانونی تھی، یہ کہ کہا جلد واپس آکر سزا بھگتیں گے اور سارہ مسلمان ہے لہذا اس کی تدفین مسلمانوںکے طریقے کے مطابق کی جائے۔ سرے پولیس کی اپیل پر پاکستان میںپولیس نے عرفان اور فیملی کے دیگر افراد کی تلاش شروع کر دی تھی اور جہلم اور دیگر علاقوں میںچھاپے بھی مارے گئے تھے۔ 13 ستمبر کو عرفان شریف، بینش بتول اور فیصل ملک واپس لندن پہنچے۔ سرے پولیس نےتینوں کو گیٹ وک ائیرپورٹ پر ہی گرفتار کرکے فرد جرم عائد کر دی تھی۔ رواںبرس 14 اکتوبر کو تینوں کے خلاف لندن کی کریمنل کورٹ اولڈ بیلی میں مقدمہ کا آغاز ہوا، تینوں افراد پر سارہ کے قتل اور اس کی موت کا سبب بننے یا اس میں معاونت کرنے کا الزام تھا۔ عرفان شریف نے ابتدا میں اپنی اہلیہ بینش بتول کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس ایول اور سائیکو کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن بعد میںجرح کے دوران انہوں نے سارہ کی موت کا اعتراف کرلیا تھا۔ عدالت میں سارہ کے حوالے سے جو تفصیلات بیان کی گئیں وہ انتہائی تکلیف دہ تھیں جن کے مطابق اس کے جسم پر 70 زخم تھے اور 25 مقامات سے اس کی ہڈیاں ٹوتی ہوئی تھیں، اس کو سر پر ہڈ پہنایا جاتا، اور مارا پیٹا جاتا اور جلایا بھی جاتا تھا۔ عرفان شریف نے کرکٹ بیٹ، دھاتی ڈنڈے اور موبائل فون سے سارہ کو مارنے کا اعتراف کیا تاہم انہوں نے سارہ کو گرم پانی یا استری سے جلانے اور دانتوں سے کاٹنے سے انکار کیا تھا۔ مقدمہ میں بینش بتول اور فیصل ملک نے اپنے دفاع میںدلائل نہیں دیئے تھے۔ جج نے منگل 4 دسمبر کو وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ پر غور کرنے کیلئے بھیج دیا تھا اور انہیںکہا تھا کہ وہ غیر ارادی قتل کے آپشن پر بھی غور کر سکتے ہیں اور وہ فیصلے پر پہنچنے میں جلدی نہ کریں بلکہ ہر ایک کیس میںخوب غور کرکے فیصلہ کریں۔ جمعرات اور جمعہ کو جیوری کے رکن کی طبعیت خراب ہو جانے کے سبب جیوری نہیں بیٹھی تھی۔ اس کیس میں پاکستان نژاد فیملی کے ملوث ہونے کے سبب کمیونٹی بھی اس کیس میں گہری دلچسپی لے رہی تھی۔