تحریر: کونسلر حنیف را جہ … گلاسگو کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں سے حل طلب ہے اور یہ نہ صرف جنوبی ایشیا کے امن کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اس علاقے کے کروڑوں افراد کے لئے بے شمار مشکلات اور مصائب کا باعث بنا ہوا ہے۔ بھارت کی 7لاکھ سے زیادہ افواج نے یہاں ظلم و ستم کی انتہا کر رکھی ہے لیکن اس کی رپورٹس باہر نہیں نکلنے پاتی اور وہاں پر بین الاقوامی آزاد میڈیا کو نہیں جانے دیا جاتا۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے اور یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روزمرہ زندگی کا ایک عام حصہ بن چکی ہیں۔ بدقسمتی سے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس طرف وہ توجہ نہیں دے رہی، جس کی اشد ضرورت ہے۔ 3اگست 2019کو بھارت کی جنتا حکومت نے خود بھارتی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی شقوں 370اور 35A کو منسوخ کر دیا تھا۔ بعدازاں اکتوبر 2020تک جموں و کشمیر میں اراضی کے متعلق بیشتر مالکانہ حقوق میں ترمیم کر دی یا ان کو منسوخ کردیا اور اس کے نتیجے میں کشمیریوں کو بڑے پیمانے پر ان کی اراضی، املاک اور جائیدادوں سے بے دخل کردیا۔ اس کااصل مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی خواہش تھی۔ نئی آئینی تبدیلیوں کے بعد کشمیر کی خود مختارحیثیت ختم ہوگئی اور یہ براہ راست دہلی کے کنٹرول میں چلا گیا۔ کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، انٹرنیٹ اور مواصلات کے تمام ذرائع معطل کر دیئے گئے اور کشمیر کے عوام پر سختیوں میںمزید شدت پیدا کر دی گئی۔ کشمیرمیں مسلمانوں کو جبراً اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر ان کی لاشیں تک نہیں ملتی ہیں۔ ماورائے عدالت قتل ایک عام روایت بن گئی ہے اور اس میں زیادہ تر عام شہریوں کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ پس پردہ آزادی کی تحریک کے حامی ہیں۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ہیں۔ مقامی صحافیوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جاتی ہیں، افواج مردوں پر بے پناہ تشدد اور عورتوں کے ساتھ ریپ کرتی ہیں۔ یہ تمام حرکات کشمیری عوام کے زخموں کو مزید گہرا کرتی ہیں بلکہ عالمی برادری کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھاتی ہیں۔ کرفیو کی پابندیوں کی وجہ سے کشمیری عوام کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ مقامی صنعتیں خصوصاً قالین بانی اور سیاحت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر ہے، اگرچہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر پر بھارتی اقدامات کی مذمت کر چکی ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن واچ جیسی تنظیموں نے ان خلاف ورزیوں کے خلاف رپورٹس بھی شائع کی ہیں، لیکن وہ تمام بڑی طاقتیں جو کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی چیمپین بنتی ہیں سیاسی مصلحتوں اور معاشی مفادات کے پیش نظر خاموش ہیں۔یسی بیرونی قوتیں جو کہ کشمیر پر ان کے حق خود ارادی کی سفارتی اور اخلاقی طور پرکھلے عام حمایت کرتی تھیں وہ بھی اپنی اندرونی مجبوریوں کے باعث زیادہ تر خاموش ہیں۔ مودی حکومت کا خیال تھا کہ 370 اور 35A کے ذریعے اس نے جو تبدیلیاں کی ہیں اب اس کے لئے راستے صاف ہوگئے ہیں اوروہ پہلی بار مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی حکومت بنائے گی اور کسی ہندو کو وزیراعلیٰ کا عہدہ سونپے گی لیکن کشمیری عوام نے گزشتہ الیکشن میں اس کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے ہیں اور ثابت کر دیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وہاں رائے شماری ہے۔ کشمیری عوام نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی شناخت اور حقوق پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، نیز پوری دنیا کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ کشمیر کی تحریک کی اصل بنیاد کشمیری عوام ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا ارادہ و خواہش ان کے دلوں میں پوری قوت سے روز اول کی طرح موجود ہے، اور وقتی یا عارضی خاموشی کا یہ مطلب نہیں کہ مسئلہ دب گیا ہے، بلکہ یہ خاموشی پہلے سے بھی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ یہ ناکامی مودی حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکہ ہے جو کشمیرمیں یکطرفہ اور بے بنیاد فیصلے مسلط کرکے اپنی پارٹی کی پوزیشن مضبوط کرنے اور وہاں ہندوتوا کا خواب دیکھ رہی تھی۔