مانچسٹر (ہارون مرزا) سیاسی پناہ کیلئے دائر اپیلوں پر صرف نصف فیصلے ہوم آفس کے معیار پر پورا اترے ہیں ۔ یہ شرح سابق وزیراعظم رشی سوناک کے بیک لاگ صاف کرنے کے دباؤ سے پہلے کے مقابلے میں کم ہے۔ سرکاری ملازمین اور وکلاء کا کہنا ہے کہ غلطیاں اور کوتاہیاں بھی مہنگے قانونی چیلنجز میں بہت زیادہ اضافہ کر رہی ہیں اپریل اور جون کے درمیان 9300سے زیادہ اپیلیں دائر کی گئیں، 2023.24میں ہوم آفس کے داخلی کوالٹی اشورنس کے عمل میں پناہ کیلئے کیے گئے فیصلوں میں سے صرف 52 فیصد تسلی بخش تھے ۔نئے اعداد و شما ر کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ شرح 72فیصد رہی ، اسی عرصے میں پہلے درجے کے ٹریبونل میں دائر سیاسی پناہ کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی تعداد8ہزار سے بڑھ کر 29ہزار تک پہنچ گئی، تقریباً نصف چیلنجز فی الحال کامیاب مانے جا رہے ہیں۔ برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق پناہ گزینوں کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر آبزرور سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم رشی سوناک کے 2023کے آخر تک 90ہزار سے زیادہ پرانے سیاسی پناہ کے دعوؤں پر کارروائی کرنے کے وعدے کے بعد تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں جس سے فیصلے کم محفوظ ہو ئے، انہوں نے پناہ کے فیصلے کرنے والوں کے لیے تربیت کی مدت کو نمایاں طور پر مختصر کر دیا،انہوں نے معیار کی بجائے مقدار پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بیک لاگ کو صاف کرنے کے اہداف کو بڑھایا، ہوم آفس نے زیادہ تر پناہ کے انٹرویوز کے لیے دو گھنٹے کی حد بھی متعارف کرائی جس کے بارے میں اہلکار نے انکشاف کیا کہ ایک پائیدار فیصلہ لکھنے کے لیے کافی معلومات اکٹھا کرنا بہت مشکل ہو گیا جو قانونی جانچ پڑتال کا مقابلہ کر سکے ۔کوالٹی اشورنس کے عمل کو بھی وراثت کے بیک لاگ کو صاف کرنے کے لیے دباؤ کے دوران گھٹا دیا گیا جس میں جون 2023کی داخلی ہوم آفس رپورٹ میں خطرات کی نشاندہی کرنے کے لیے ناکافی سرگرمی اور غلط یا غیر پائیدار فیصلوں کے خطرے کی وارننگ دی گئی، عام انتخابات کے بعد سے سیاسی پناہ کی کارروائی میں تبدیلیوں کو برقرار رکھا گیا ہے۔ پناہ کی وکالت کے سربراہ سائیل رینالڈز نے کہا اگر کارکردگی کے حصول میں معیار کو قربان کیا جاتا ہے تو پھر ہم پناہ گزینوں کو تشدد اور ایذا رسانی کے لیے واپس بھیجنے کا خطرہ مول لیتے ہیں ،اگرموجودہ حکومت سابقہ حکومت کی غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہتی تو اسے رفتار کے ساتھ معیار کو بھی فوری ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ للی پیروٹ ڈنکن لیوس کی ایک وکیل جو پناہ کے دعوؤں میں مہارت رکھتی ہیں نے کہا کہ اس نے اور ان کے ساتھیوں نے فیصلہ سازی کے معیار میں کمی دیکھی ہے ہم بہت زیادہ غیر متوقع انکار دیکھ رہے ہیں جیسے جیسے فیصلوں کا معیار گرتا جاتا ہے اس سے مزید انکار اور زیادہ اپیلیں ہوتی ہیں پناہ گزینوں میں غلطیوں میں غلط نام، غلط قومیت، غلط جنس اور جہاں وہ واضح طور پر دوسرے لوگوں کے فیصلوں کے سیکشنز کو کاپی اور پیسٹ کر رہے ہیں کے فیصلے کے خطوط شامل ہیں ۔امیگریشن لاء پریکٹیشنرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ ممبران حقیقت پر مبنی غلطیاںاور شواہد پر غور کرنے میں ناکامی اور خراب معیار کے انٹرویوز دیکھ رہے ہیں۔