ملتان ( جنگ نیوز)ملتان میں اپنے بھائی کے ہاتھوں ’غیرت کے نام پر‘ قتل ہونے والی سوشل میڈیا کی مقبول پاکستانی شخصیت قندیل بلوچ کے والدین کا کہنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن جب سے مفتی قوی والی بات ہوئی تو وہ ڈری رہتی تھی اور کہتی تھی کہ اگر کوئی گھر کے باہر میرا پوچھتا ہے تو اسے پوچھو کون ہے انھوں نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ قندیل کے قتل پر ان کی تکلیف کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اور اسے بےقصور مارا گیا۔ وسیم نے قندیل کو قتل کر کے جو جرم کیا ہے اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو۔برطانوی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے محمد عظیم اور انور بی بی کا کہنا تھا کہ ملزم وسیم نے جمعے کی شام ان کے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا لیکن اس نے اپنے رویے سے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایسی حرکت کر سکتا ہے۔انور بی بی نے کہا کہ وسیم نے انھیں اور ان کے شوہر کو دودھ میں نشہ آور دوا ملا کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ نہیں جانتے کہ قندیل کے قتل کے وقت کیا ہوا۔ صبح قندیل کو آواز دی کہ بیٹا ناشتہ کر لو ۔ پہلے وقت پر اٹھ جاتی تھی پر وہ نہیں اٹھی۔ میں نے سوچا جا کر دیکھوں ، یہ کس طرح کی نیند آئی ہوئی ہے اس کو، سفید چادر اوڑھ کر پڑی ہوئی ہے۔انور بی بی نے بتایا کہ جب انھوں نے قندیل کے چہرے سے چادر ہٹائی تو ان کے سارے چہرے پر نشان تھے جبکہ زبان اور ہونٹ کالے پڑ چکے تھے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ وسیم نے اپنے دوستوں میں قندیل کو جانی نقصان پہچانے کی بات بھی کی اور جب قندیل کو معلوم ہوا تو اس نے اسے نظرانداز کر دیا۔’جیسے آج کل حالات چل رہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ وسیم قندیل کو مارنے لگا ہے۔ جب قندیل کو پتہ لگا اس نے کہا بڑا آیا مجھے مارنے والا! پھر میں نے اور اس کے باپ نے اسے (وسیم کو) ملامت کی کہ اس لئے بڑے ہوئے ہو کہ بہن کی جان لے لو۔ انور بی بی نے بتایا کہ قندیل کے بھائیوں کو ان کے شوبزنس میں جانا شروع سے ہی پسند نہیں تھا تاہم حالیہ واقعات کے بعد ان کا ’ذہن خراب ہوا،پہلے تو سکون تھا۔ یہ جو مہینہ ہے نہ رمضان والا ، اسی میں شور شرابہ مچا ، غلط تصویریں ، غلط باتیں پھیلیں، اسی وجہ سے ہوا۔ بھائی پاگل ہوگیا۔ اس کے دوست سارے طعنے دیتے تھے ’یہ تیری بہن ہے، یہ تیری بہن ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ قندیل اب یہ کام نہ کرے ، اس کو اب روک دو۔ ہم بلوچ خاندان سے ہیں، لوگ ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔قندیل کی والدہ کے مطابق وہ صرف ان کی بیٹی ہی نہیں دوست بھی تھیں اور اپنے کیرئیر کے بارے میں بھی ان سے بات کرتی رہتی تھیں۔ اس دفعہ آئی تو کہہ رہی تھی تیری بیٹی کے دکھ ختم ہو گئے ہیں۔ کہہ رہی تھی میرا ٹائم آ گیا ہےترقی کا۔انھوں نے بتایا کہ ’ہم پیچھے سے بہت غریب ہیں ، ہمیں بیٹی سہارا دیتی تھی۔ بیٹے شادی شدہ ہیں، بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہیں وہ ہمارا خیال نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہمیں پیار کرتی تھی۔گاؤں سے یہاں لے کر آئی تھی کہ آپ کا خرچہ اٹھا سکتی ہوں۔انور بی بی کا کہنا تھا کہ انھیں قندیل کے کام پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ اس کی ترقی پر خوش تھے۔قندیل کے والد محمد عظیم کا بھی کہنا ہے قندیل ان کے لیے کسی بھی اچھے بیٹے سے بڑھ کر تھی۔انھوں نے کہا کہ وہ بیٹی کے قتل پر بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور اسے ضرور سزا ملنی چاہیے۔میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو، ہم بہت تکلیف میں ہیں۔ محمد عظیم نے کہا نشے میں ہونے کی وجہ سےحساس ادارے میں موجود بیٹے کا نام لیا ، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، وہ ملوث نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’جب سے عبدالقوی والی بات ہوئی، تب سے لوگ شکایتیں لگانا شروع ہوگئے ہیں۔ اس جھگڑے میں سارا کچھ ہو گیا۔ وہ ڈری ہوئی تھی، کئی بار کہتی تھی کہ اگر کوئی گھر کے باہر میرا پوچھتا ہے تو اسے پوچھو کون ہے؟‘