آج موبائل ہاتھ میں تھام کرہر شخص کہہ سکتا ہے۔ ’’بازیچہ ِاطفال ہے دنیا مرے آگے....ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘‘۔ اسی تماشے کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوا کہ مہنگائی میں اضافےکے سبب بینک آف کینیڈا نے شرح سود چار فیصد سےکم کر کے تین اعشاریہ پچیس فیصد کر دی ہے۔ درِ حیرت کدہ کھلا کہ پاکستان میں تو مہنگائی بڑھنے کی وجہ شرح سود ہے جو اڑھائی فیصد کم کر کے پندرہ فیصد کر دی گئی ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ شرح سود بائیس فیصد سے رفتہ رفتہ نیچے لائی گئی ہے۔ وائے ناکامی ِ معاش، ہم کہاں پہنچ گئے تھے۔ شرح سود کم کی جاتی ہے کہ قرضوں کی لاگت کم ہو جائے۔ ادائیگی میں آسانی ہو کہ لوگ زیادہ قرض لیں۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو، بزنس میں بہتری آئی۔ معاشی سرگرمیاں بڑھیں، کم شرح ِسود لوگوں کو قرض لینے کی ترغیب دیتی ہے مگر کہاں تین چار فیصد سود اور کہاں پندرہ فیصد، وہ بھی بائیس سے کھینچ کر نیچے لایا گیاہوا۔ ایک دلچسپ وضاحت کہ یہ شرح سود بڑے سرمایہ کاروں کیلئے نہیں، صرف ہمارے تمہارے لئے ہے۔ اگر کسی نے چالیس پچاس کروڑ کا قرضہ لینا ہے تو شرح سود کم ہو کر پانچ سات فیصد بھی ہو سکتی ہے۔ یہ شرح بینک کاروں اور سرمایہ کاروں کے درمیان طے ہو گی۔ یعنی اس نظام کی بنیادوں میں رکھا گیا ہے کہ جس شخص نےت یس چالیس لاکھ قرضہ لینا ہے وہ ساری عمر سود اتارتا رہے اور جس نے تیس چالیس کروڑ قرضہ لینا ہے۔ اسے سود دینےمیں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ یہ کمزور کو کمزور تر اور طاقتور کو طاقتور ترین کا نظام ہماری قسمت میں لکھا ہوا ہے۔
میں نے عالم فاضل دوست سے پوچھا کہ تمہارا ترقی یافتہ ممالک میں شرح ِسود اور تیسری دنیا کے ممالک میں شرح سود کے متعلق کیا خیال ہے۔ تو وہ کہنے لگا ’’میں مذہبی طور پر خیر ایک فیصد سود کو بھی حرام سمجھتا ہوں لیکن انسان دوستی کے نقطہ نظر سے مجھے لگتا ہے کہ تین چار فیصد کوئی سود نہیں۔ اتنے تو لین دین کرنے میں بینک کے اخراجات اٹھ جاتے ہیں۔ حقیقی سود یہی ہے جو ہمارے جیسے ممالک میں رائج ہے‘‘۔ اس نے بتایا کہ ’’یہودیوں کے جتنے بینک ہیں وہ ہر یہودی النسل شخص کو صرف ایک فیصد سود پر قرض دیتے ہیں‘‘۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جو قرض لے رکھے ہیں ان زیادہ تر قرضہ جات پر شرحِ سود دو یا تین فیصد ہے۔ سویڈن میں شرح سود صفر فیصد ہے۔ یعنی ہے ہی نہیں، جاپان اور برونائی میں شرح سود صفر اعشاریہ دس فیصد ہے یعنی نہ ہونے کے برابر۔ ڈنمارک میں صفر اعشاریہ ساٹھ فیصد ہے، سوئٹزر لینڈ میں صفر اعشاریہ 75فیصد ہے، ناروے اور ملائیشیامیں تین فیصد، چین اور جنوبی کوریا اور سنگاپور میں تقریباً ساڑھے تین فیصد ہے۔ یورپی یونین میں چار فیصد ہے۔ سعودی عرب، نیوزی لینڈ، امریکہ اور برطانیہ میں یہ پانچ ساڑھے پانچ فیصد کے درمیان رہتی ہے۔ انڈیا میں شرح سود ساڑھے چھ فیصد ہے۔ جن ممالک میں شرح سود پاکستان کے قریب یا اس سے زیادہ ہے، ان میں یوگنڈا، ہنگری، نائجیریا، ترکی، ایران، مصر وغیرہ شامل ہیں۔
کچھ ممالک میں اسلامی بینکاری بھی ہے جن میں برطانیہ، یورپ کے کچھ ممالک، سعودی عرب، ملائیشیا، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، قطر، سوڈان اور نائیجریا وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی نہ سود لیا جاتا ہے نہ دیا جاتا ہے۔ منافع اور نقصان کی مشترکہ تقسیم پر مبنی ماڈلز استعمال کیے جاتے ہیں مگر یہ بینک جو منافع دیتے ہیں وہ تقریباً ان ممالک کے شرح ِ سود کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ ابھی تک کسی اسلامی بینک نے اپنے مشترکہ کاروبار میں نقصان کا اعلان نہیں کیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے پاکستان میں شر ح سود میں کیسے کمی آئے گی اگرچہ حکومتی اقدامات سے معاشی صورتحال میں کچھ نہ بہتری آ رہی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی کہا ہے کہ معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔ شرح سود میں کمی آئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں مگر غریب عوام بدستور غربت کے شدید بحران میں ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق غربت کی شرح 38.6فیصد سے بڑھ کر 39.5فیصد ہو ئی ہے۔ بے روزگاری کی سطح خطرناک حد پر ہے۔ بلوچستان میں یہ 70 فیصد، خیبر پختونخوا میں 48فیصد، سندھ میں 45فیصد البتہ پنجاب میں صورتحال کچھ بہتر ہے۔ ورلڈ بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے مالی سال 2026ء تک پاکستان میں غربت کی شرح 40فیصد تک رہے گی۔
اسی سال جنوری میں عالمی بینک کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسین نے لکھا تھا کہ سات فیصد بچے پانچ سال کے ہونے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ دس سال عمر کے 78فیصد بچے اس قابل نہیں کہ اپنی عمر کی مناسبت سے موزوں تحریر پڑھ سکیں۔ دو کروڑ سے زائد اسکول نہیں جاتے۔ اگر اس سال پاکستان اپنے معاشی پروگرام میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات لے آتا ہے تو توقع کی جا سکتی کہ دو ہزار سینتالیس یعنی قیام کے سو سال بعد متوسط آمدنی والے ممالک میں شامل ہو۔ یہ سال ختم ہونے والاہے چند دن باقی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشی بہتری کیلئے حکومت نے کوئی انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ اگلے سال کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سوچتی ہیں کہ اگر ہر گھر میں سولر انرجی پہنچا دی جائے تو معاشی انقلاب کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ وہ اسی سلسلے میں چین گئی ہوئی ہیں، بے شک یہ آئیڈیا برا نہیں مگر وہ لوگ جنہوں نے تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگا رکھے ہیں۔ کیا وہ ایسا ہونے دیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑ بندیاں بہت مضبوط ہیں۔