کراچی کے علاقے میں یونیورسٹی روڈ پرپانی کی لائن پھٹ گئی جس کے نتیجے میں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔سڑک کے دونوں طرف اتنا پانی جمع ہو گیا تھا کہ ٹریفک رک گئی تھی ۔گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی تھیں۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اسے ٹھیکیدار کی غفلت قرار دیا کہ جسکے نتیجے میں چوراسی انچ کا پائپ پھٹ گیا۔پاکستان میں بے شمار خرابی کے کام جو غفلت قرار پاتے ہیں وہ غفلت کرپشن کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس کی کسی کو سزا نہیں ملتی ۔تب ہی ایسے کام صرف پاکستان میں ہوتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا کوئی منظر دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ وہاں جزا اور سزا کے قوانین پر پوری طرح عمل ہوتا ہے۔ بے شک پاکستان میں جھوٹ فریب اور کرپشن کی ہر طرف عمل داری ہے ۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان میں امانت دار لوگ پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ملک میں سچائی کا ہولناک قحط پڑگیا ہے۔ میگا کرپشن مائونٹ ایورسٹ سر کر چکی ہے۔ فریب کاری نے ایسے ایسے دام ِ ہم رنگِ زمیں بچھا دیئے ہیں جن سے بچ نکلنا ممکن ہی نہیں رہا۔ دیانت دار لوگ پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں مگر یہ حقیقت نہیں ہے ۔وہ لوگ ابھی تک پیدا ہو رہے ہیں جنہیں برے لوگوں کے سر دکھائی نہیں دیتے جو یہ کہتے ہوئے گھروں سے نکلتے ہیں کہ
اے قاسم ِ اشیاء تری تقسیم عجب ہے
دستار انہیں دی ہے جو سر ہی نہیں رکھتے
مگر جیسے ہی باہر آتے ہیں معاشرہ انہیں پاگل قرار دے دیتا ہے۔ انہیں ماہرین ِ نفسیات کے پاس جانے کے مشورے ملنے لگتے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی کا یہی حال ہے۔ کوئی ادارہ اس سے محفوظ نہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ میں نے اِس مسئلےپرانیس سو بانوے میں ٹی وی کیلئے ایک ڈرامہ لکھا تھا ۔اُس کی کہانی کچھ یوں تھی کہ میڈم پروین کسی شخص میں جب کوئی برائی دیکھتی تھی توبے ساختہ اس کے منہ سے نکلتا تھا ۔ اِس کا توسر ہی نہیں۔یعنی’’سر ہی نہیں‘‘ اُس کا تکیہ کلام تھا۔ اُس کا دس سالہ بیٹا ناصر اکثر اُس سے پوچھتا تھا کہ ’’امی بے سرے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ وہ بولتے کیسے ہیں‘‘۔ ماں نے ایک دن تنگ آکر یونہی کہہ دیا کہ’’ اُن کے نرخرے سے آواز نکلتی ہے‘‘ یہ بات بچے کے دماغ میں راسخ ہو کر رہ گئی کہ برے لوگوں کے سر نہیں ہوتے اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ اسکول میں جب اُس کا کلاس ٹیچر بچوں کو زبردستی ٹیسٹ پیپر بیچنے کی کوشش کرنے لگا تو اس کا سر غائب ہو گیا۔ ناصر کو اس کی آواز نرخرے سے آتی ہوئی سنائی دی ۔وہ چیخ مار کر بھاگا اور گھر جا کر ماں سے کہنے لگا کہ مجھے اپنے استاد کا سر دکھائی نہیں دیتا۔ ماں اس کی آنکھیں چیک کرتی ہوئی کہنے لگی۔ ’’آنکھیں ٹھیک لگ رہی ہیں تمہاری‘‘ ماں نے اسے کار میں بٹھایا اور آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر وہاں ایک ایسے شخص کو جسے دکھائی دیتا تھا اُسے دفتر سے چھٹی کیلئے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنا کر دے رہا تھا۔ جیسے ہی ناصر کو اس بات کا علم ہوا تو ڈاکٹر کا بھی سر غائب ہوگیا۔وہی نرخرے سے آتی ہوئی آواز سنائی دی۔ اس نے چیخ ماری اور بھاگ کر باہر نکل آیا۔ ڈاکٹر نے ماں کو مشورہ دیا کہ ناصر کو کسی ماہرِ نفسیات کی ضرورت ہے۔ واپسی پر ان کی کار ایک پولیس سارجنٹ نے روک لی اور اپنے مخصوص انداز میں کچھ رقم کا تقاضا کرنے لگا۔ اس سارجنٹ کا سر بھی غائب ہو گیا۔ بڑا مسئلہ بن گیا۔ ناصر کا انکل وکیل تھا۔ اگلے دن وہ آیا اور بڑے فخر سے بتانے لگا کہ آج اُس نے ایک ایسے مجرم کو رہا کرایا ہے۔ جس کے جرم کے چار چشم دید گواہ تھے اور اس کے انکل کا بھی سر غائب ہو گیا۔ ناصر کو کئی ماہرینِ نفسیات کے پاس لے جایا گیا۔ مگر اسی طرح لوگوں کے سر غائب ہوتے رہے۔ اس کے بیورو کریٹ ماموں کا سر غائب ہوا۔ ان کے ہمسائے میں رہنے والے ایک سیاسی لیڈر کا سر غائب ہوا۔ اس کے ابو کا ایک دوست جو بڑا معروف صحافی تھا اور اکثر ان کے گھر آیا کرتا تھا ایک دن اس کا سر بھی غائب ہو گیا حتیٰ کہ ایک دن ایسا آیا کہ اس کے ابو جو بہت بڑے بزنس مین تھے ان کا سر بھی غائب ہوگیا۔
اسی طرح اس بیماری میں دو ماہ گزر گئے اس کے امتحانات آگئے مگر وہ دو ماہ سے اسکول گیا ہی نہیں تھا ۔ ماں چاہتی تھی کہ اس کا سال ضائع نہ ہو مگر ناصر اسکول جانے پر راضی ہی نہیں تھا کہ وہاں اسے اپنے استاد کا سر نہیں دکھائی دیتا تھا۔ ماں نے اس کے ایک کلاس فیلو دوست سے بات کی۔ اس لڑکے نے کسی نہ کسی طرح ناصر کو امتحان دینے پر تیار کر لیا۔ ناصر نے اسے بہت کہا کہ میں نے تو دو ماہ سے کچھ پڑھا ہی نہیں میں فیل ہو جائوںگا مگر دوست نے اس سے کہا کہ تیرے پاس ہونے کا میں ذمہ دار ہوں ۔تو بس امتحان دے۔ امتحان دینے کیلئے ناصر اپنے دوست کے ساتھ سہما ہوا اسکول گیا۔ اور سر جھکا کر بیٹھ گیا کہ اس کی نظر اپنے استاد پر نہ پڑے ۔سوال نامہ تقسیم ہوا ۔ناصر کو کوئی سوال بھی نہیں آتا تھا۔ ناصر کے پیچھے والی کرسی پر اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا۔ ناصر نے اُس سے سرگوشی کے لہجے میں کہا کہ مجھے تو ان میں سے کوئی سوال نہیں آتا اور دوست نے ایک چھوٹی سی پرچی اس کی طرف بڑھا دی جس پر ایک سوال کا جواب لکھا ہوا تھا۔ ناصر نے جیسے ہی اسے پیپر پر نقل کرنا شروع کیا تو اسے اپنے استاد کا سر دکھائی دینے لگا۔ نرخرے سے آنیوالی آواز ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئی۔